کچھ لوگوں کے عجیب و غریب شوق ہوتے ہیں اور یہی شوق اگر ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو اس کو عشق بھی کہہ سکتے ہیں ۔ ہمارے خنظلہ کے بارے میں تو اپکو ہم نے انہی سطور میں بتایا تھا کہ وہ پڑوس کے دیوہیکل کتے ” لاںڈ و” کے عشق میں ایسے مبتلا تھے کہ جیٹ اور ہاڑ کی تپتی دوپہر کو اپنے گھر کے منڈیر پر سر رکھے لانڈو کے دیدار سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ گھر سے اپنے حصے کا کھانا چوری کرکے لنڈو کے سامنے پیش کیا کرتے تھے ۔ بات کرتے تھے تو لانڈو ہی موضوع سخن ہوا کرتا تھا ۔ یہی تو عشق ہے اور ایسے ہی عاشق ہوتے ہیں ۔ خیر صرف ہمارے خنظلہ کا ہی عشق عجیب و غریب نہیں تھا ۔ ہمارے علاقے حیدر خیل میں ایک ایسے شخص کے بارے میں سن لیں جس کو لاؤڈ سپیکر سے عشق ہوگیا تھا اور یہی عشق ایسے سر چڑھا تھا کہ ایک دن گھر میں آکر اعلان فرمایا کہ مجھے بیوی نہیں چاہئے بس ایک لاؤڈ سپیکر کہیں سے دلا دیں ۔ یہ صاحب کسی سکول میں کلاس فور ملازم تھے ۔ امتحانات کے دنوں میں یہ سٹوڈنٹس سے کہتے تھے کہ جلدی جلد پیپر حل کر لیا کریں ۔ طلباء نے پوچھا کہ اخر تمھیں کیا جلد ہے ۔ اس صاحب نے جواب دیا کہ میرعلی میں مسجد کا چندہ ہورہا ہے اس کے لاؤڈ سپیکر میں چندے کے اعلانات کیلئے میں نے جانا ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ جس طرح کسی کو محبوب سے ملنے کا اشتیاق ہوتا ہے ایسے ہی ان معصوم لوگوں کو اپنے معصوم قسم کے “معشوقوں ” سے ملنے کی جلدی ہوتی ہے ۔ ویسے لاؤڈ سپیکر سے متعلق ایک اور عشقیہ بات یاد ائی ۔ ہمارے قریبی گاؤں ہر مز میں بھی ایسے ہی ایک بندہ خدا کو لاؤڈ سپیکر کا عشق ہوگیا تھا ۔ اپنے عشق کی تشفی کیلئے وہ اکثر نعتوں والی کیسٹ کو مسجد لاکر لاؤڈ سپیکر ان کردیتا تھا اور خود موصوف باہر نکل کر سر سبز کھیتوں کے درمیان مٹر گشت کرتا تھا اور اپنی نعت خوانی سے بھی لطف اندوز ہو نے کے ساتھ ساتھ ” ثواب دارین ” بھی جمع کرتا رہا ۔ ظہر کی نماز ہو تے ہی موصوف اپنی واحد کیسٹ لیکر مسجد میں وارد ہوتا اور پورے گاؤں کو گرمیوں کے سہ پہر میں مسلسل تین گھنٹوں تک نعتیں سننے کا جبری شرف حاصل کرواتے تھے ۔ ایک دن گاؤں کے کچھ شرارتی بچوں نے ان کو پھنسانے کا انوکھا پلان بنایا ۔
جب وہ باہر کھیتوں میں نعتوں والی کیسٹ کو اانجوائے کر رہا تھا تو کچھ بچوں نے مسجد اکر نعتوں والی کیسٹ نکال کر ہمارے سب سے فیورٹ فوک گلوکار دمساز مروت مرحوم کی کیسٹ ٹیپ ریکارڈ میں لگائی جس سے لاؤڈ میں اچانک نعتوں کے بجائے ” چہ مازیگر درپسے واڑیدل مخونہ ۔۔۔۔ پہ نظر بہ شے ۔۔ روگدہ قدامونہ پہ نظر بہ شے ” شروع ہوگیا تو گاؤں کے سبھی مکین ایک دوسرے کا منہ تھکنے لگے اج موصوف کو یہ کونسا نیا شوق چڑھ گیا ۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم جیسے گنہ گاروں کو توبہت چھا لگا ۔ بہر حال موصوف بھاگتے ہوئے مسجد میں ائے اور کیسٹ نکال لی لیکن عین اس وقت جب وہ کیسٹ نکال رہا تھا مسجد کے دروازے کے کی اوٹ میں ایک سب سے شریر بچہ چھُپ گیا تھا جس نے بٹن اف کرلی اور مسجد میں تاریکی چھا گئی ۔ یہ موصوف ( جس کانام میں بوجوہ یہاں نہیں لکھ سکتا) سمجھے کہ شاید بجلی چلی گئی ہے اس لئے لاؤڈ سپیکر بھی اف ہوگا ۔ یہی سوچ کر انہوں نے جو بچوں کی شان میں مقامی و غیر مقامی گالیوں کا ایک نہ ختم ہو نے والا سلسلہ شروع کیا جو لائیو ان ائیر جارہاتھا اور موصوف کو جب تک یہ معلوم ہوتا رہا کہ لاؤڈ سپیکر ان تھا اور اس کے منہ سے نکلی ہوئی تمام گالیاں براہ راست ان شریر بچوں کے والدین کو بھی مل چکے ہیں تب تک بہت دیر ہو چکی تھی لیکن بچوں پر کس کا زور چلتا ہے اس لئے تو کہتے ہیں کہ شیطان نے بھی بچوں سے امان مانگی ہے ۔ بس وہ دن اور اج کا دن موصوف کے سر سے لاؤڈ سپیکر کا عشق ایسے اتر گیا جیسے پیناڈول کی گولیاں کھانے سے بخار اتر جاتا ہے ۔ کیسے کیسے معصوم لوگوں میں اپنی جیون ہم نے بِتائی ہے ۔