شمالی وزیرستان میں، اپریشن ضرب عضب گزرنے کے پانچ سال بعد بھی امن قائم نہ کیا جاسکا، یوتھ آف وزیرستان

پشاور ( دی خیبرٹائمز جنرل رپورٹنگ ڈیسک ) یوتھ آف وزیرستان نے پشاور پریس کلب میں شمالی وزیرستان میں امن آمان کے ابتر صورتحال کے حوالے سے پریس کانفرنس کیا، جس سے یوتھ آف وزیرستان کے صدر اسداللہ شاہ نے کہا کہ بدقسمتی سے شمالی وزیرستان میں ضرب عضب کے پانچ سال بعد بھی امن قایم نہ ہوسکا، جس کی مثال ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے اور مقامی قبائل کے درمیان بڑے اور جدید ہتھیاروں سے لڑے جانے والے جنگ ہیں، دو قبائل خدی اور مچھی خیل کے درمیان 4 دن سے لڑائی جاری ہے جس میں ہر قسم کے جدید ترین اور بھاری ہتھیاروں کا ازدانہ استعمال ہورہا ہے لیکن پولیس، فوج، ایف سی اور ضلعی انتظامیہ مسائل کو حل کرنے کی بجائے مزید گھمبیر بنارہے ہیں موجودہ انتظامیہ مسائل آئین پاکستان کے مطابق حل کرنے کی بجائے اپنے مراعات یافتہ ملکانان اور مشران کو مزید پیچیدہ بنانے کا ٹاسک دے رکھا ہے۔ جس کی بدولت مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔
جنرل سیکرٹری وقار احمد نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انظمام کے دو سال بعد بھی وزیرستان بشمول تمام قبائل اضلاع کے حالات جوں کے توں ہیں، نہ تو امن ہے نہ وہ خوشحالی جس کا ہمیں تاثر دیا جارہا تھا۔ ریاستی ادارے کسی قسم کی ذمہ داری نبھانے سے گریزاں ہیں، اگر یہ مسلے مسائل ایسے ہی چلتے رہے تو خدشہ ہے کہ دہشتگردی مزید بڑھے گی ۔ جس کی ذمہ داری فوج سمیت تمام اداروں پر ہوگی۔ کیونکہ یہی فوج ہے جس نے ضرب عضب کے بعد DE weaponization کی تھی لیکن حیرانی کی بات ہے کہ وزیرستان ایک بار پھر ہر قسم چھوٹے بڑے ہتھیاروں کی آماجگاہ بن گئی ہے۔
تنظیم کے ترجمان مصور داوڑ نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے چند ماہ بعد ٹارگٹ کلنگ کا آغاز ہوا تھا جو تاحال زور و شور کے ساتھ جاری ہے نہ تو کوئی ادارہ اس حوالے سے سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے اور انتظامیہ کے بیشتر افسران تو بیچارے ایف سی آر کے کالے قانون کے پیداوار ہیں اور اسی قانون کی وکالت کررہے ہیں، واضح رہے کہ وزیرستان کے موجودہ حالات اسی کالے اور کالعدم قانون کی مرہون منت ہیں ۔ ہم درخواست کرتے کہ وزیراعظم پاکستان سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ خواب سچ کردکھائیں جس کے ہمارے ساتھ دوران ضرب عضب وعدے کئے گئے تھے۔
تنظیم نوجوانان یوتھ آف وزیرستان کے سنیئیر رہنما وسیم وزیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مرجر کو عرصہ ہوچکا ہے لیکن حالات واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اسے عملی جامہ پہنانے یا بالفاظ دیگر ہمیں پاکستانی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ، کیونکہ نہ تو وہاں پولیس فعال ہے اور نہ ہی عدالتیں لائی جارہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے کرتا دھرتا ؤں نے لوٹ مار کا بازار گرم کررکھا ہے۔ لہذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر موجودہ حکومت واقعی حالات کی بہتری میں سنجیدہ ہے توہماری عدالتیں بنوں کی بجائے وزیرستان میں قائم کئے جائیں۔
ہدایت اللہ کا کہنا تھا کہ مرجر کے باوجود ہمیں وہ حقوق نہیں دئے جارہے جو پاکستان کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں نہ تو وہاں بجلی ہے نہ پانی اور نہ ہی انٹرنیٹ ۔ خصوصا جبکہ کرونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے پچھلے ایک سال کے دوران اکثر بند رہتے ہیں اور ہمارے بچے آن لائن کلاسز سے بھی محروم رہے ہیں جوامتیازی سلوک کی حد ہے۔
سابقہ فائنانس سیکرٹری وقار احمد کا کہنا کہ ہیلتھ اور ایجوکیشن کی معیاری بنیادوں پر اصلاح کی جائے کیونکہ یہاں مذکورہ ادارے خرد برد اور بھتہ خوری کے اڈے بن گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بیشتر تعلیمی اور ہیلتھ کے ضروریات نہ ہونے کی وجہ غیر فعال ہیں۔ اس کے علاوہ سپین وام کا واحد ہسپتال بھی ایف سی کے قبضے میں ہیں جو محرومی کا سبب بنتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں