پاکستان میں لوگ باضابطہ طور پر یکم اکست 2020 سے عیدالاضحیٰ مزہبی اور روایتی انداز میں منا رہے ہیں، لیکن وزیرستان کے رہائشی شکایت کر رہے ہیں کہ وہ اس عید پر بھی علاقے میں بجلی کی بندش ، مواصلات کی کمی اور چیک پوسٹوں پر ہراسانی کے شکار ہیں۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی سے عادل داوڑ نے کہا کہ یہ عید اس لحاظ سے بھی اچھا گزررہا ہے کہ علاقے میں ابھی تک کوئی ایسا واقع رونما نہیں ہوا ہے جو علاقے میں پریشانی کا سبب ہو ان کے مطابق ضرب عضب کے بعد ان کے اکثر عیدیں خون میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ جس سے علاقے کی خوشی کے مواقع بھی غم میں تبدیل ہو جاتے ہیں.
داوڑ نے بتایا کہ پچھلے عیدالفطر کے موقع پر حسوخیل کے علاقے میں تین افراد کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا ، جس میں ایک پاکستانی سی ایس ایس انیسویں گریڈ کا افسر بھی شامل تھا۔ جس کی وجہ سے عید، عید ہی نہ رہی.
ان کا کہنا ہے کہ قربانی کا گوشت ایک دن میں ختم نہیں ہوسکتا اور اسے خراب ہونے سے بچانے کے فریج یا فریزر میں رکھ دیا جاتا ہے جو آئندہ کچھ دنوں کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے وزیرستان میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ قربانی کا گوشت پتلی پتلی ٹکڑوں میں کاٹتے ہیں ، اسے مقامی زبان میں “ورشکئی” کہتے ہیں اور پھر سورج کے دھوپ میں خشک کردئے جاتے ہیں۔ عادل داوڑ کا کہنا ہے کہ اس کے بعد خشک گوشت کئی دنوں یا مہینوں کے لئے لوگ استعمال کرتے ہیں۔
گوشت خشک کرنے کا یہ روایتی طریقہ قدیم زمانے سے ہی پشتون علاقوں میں رائج ہے ، لیکن جدید الیکٹرانک سہولیات کی آمد کے ساتھ ، اب زیادہ تر لوگ گوشت کو فریج میں محفوظ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دن میں چھ گھنٹے تک بجلی ہوتی ہے اور اٹھارہ گھنٹے بند رہتی ہے. اسلئے لوگ فریج ۔میں گوشت نہیں رکھ سکتے اور گوشت کا ورشکئی بناتے ہیں.
یہ بھی پڑھئے : جو وقت کی گردو غبار میں دفن ہو چکا ہے۔ تحریر : احسان داوڑ
شمالی وزیرستان رزمک کے رہائشی امین وزیر نے بتایا کہ ان کی عید روایتی طور پر اچھی تھی ، مزید کہا کہ قربانی کے جانوروں کی آنتوں اور دیگر گندگی کی صفائی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ انہوں نے بجلی کی بندش کی بھی شکایت کی اور کہا ہے کہ تین دن کے بعد ایک گھنٹہ کے لئے بجلی کی لائن بحال کردی جاتی ہے۔
امین وزیر کے مطابق رزمک کا موسم کافی سہانا ہے ٹھنڈی ہواؤں کے ساتھ شوال سے لے کر پیر غر تک کھالے بادلیں چھائیں ہوئی ہیں. اور سیر وتفریح کے لئے ائے ہوئے سیاح اس پر سکوں ماحول سے کافی لطف اندوز ہو رہے ہیں
ان کے مطابق ٹریفک بھی ایک بہت بڑا مسلہ ہے، جسے قابو کرنے کے لئے کوئی طریقہ کار نہیں ہے، تاہم دوسری جانب چیک پوسٹوں پر تلاشی اور اندارج کی وجہ سے شدید ٹریفک جام ہے.
جنوبی وزیرستان کے علاقے تیازارہ کے رہائشی ، مولانا عبد الرشید نے بتایا کہ اس کے علاقے کے لوگ زیادہ تر غریب ہیں اور دوسرے شہروں میں مزدوری کرتے ہیں ، انہوں نے بتایا کہ کورونا وبا کی وجہ سے ان کی معاشی حالت کافی خراب ہوگئی ہے ، جس کی وجہ سے اس بار بہت کم لوگوں نے عید کی قربانیاں کی ہیں۔ انہوں نے بھی بجلی کی کمی کی شکایت کی ، اور کہا کہ دن میں صرف ایک گھنٹے کے لئے بجلی ہوتی ہے باقی سارا دن بند رہتی ہے. عبد الرشید نے علاقے میں بجلی بحالی کے ساتھ مارکیٹس اور دوکانیں تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ لوگوں کو روزگار مہیا ہو. انہوں نے کہا کہ چیک پوسٹوں پر نرمی کر دی جائے تاکہ اس عید پر زیادہ لوگ سیر وتفریح کے لئے وزیرستان کا رخ کر سکے.
علاقے کے مکینوں کے مطابق اکثریت علاقوں کو ابھی تک بجلی اور ٹیلیفون کی فراہمی نہیں ہے۔ جبکہ دوران عید چیک پوسٹوں پر بھی چیکینگ سخت کردی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: عید الضحیٰ کی ہیٹرک، ذمہ داری کس پر عائد ہوگی ؟ احسان داوڑ
جنوبی وزیرستان وانہ کے رہائشی اللہ نور ننگیالی نے متحدہ عرب آمارات سے ٹیلیفون کے زریعے بتایا ، کہ ملک کے دیگر حصوں کے لوگ انٹرنیٹ پر ویڈیو کال کے ذریعے اپنے رشتہ داروں کو عید کی مبارکباد دے رہے ہیں، اور وزیرستان کے عوام کو ابھی تک اس کے علاقے میں ٹیلفونک سہولت میسر نہیں جو اپنے رشتہ داروں سے عید مبارک کر سکے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیلیفون کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک اپنے اہل خانہ کو عید کی مبارکباد نہیں دی ہے۔
وزیرستان سے تعلق رکھنے والے متعدد صحافیوں نے اپنے سوشل میڈیا پیجز پر عید کے پیغامات پہلے ہی شائع کئے ہیں ، جس میں کہا ہے کہ وزیرستان سے رابطوں کا کوئی سہولت نہیں ہے۔ عدنان بیٹنی
ایک نظر یہاں بھی : وزیرستان میں عید کے موقع پر سیاحوں کا سیلاب اُمڈ آیا
عدنان بیٹنی صحافی کالم نگار و نامہ نگار ہے، نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی ادارے وائیس آف امریکہ کے خصوصی نمائندے بھی ہیں۔
2 تبصرے “وزیرستان میں عید کا احوال۔ سیرو تفریح، مسائل و مشکلات۔ تحریر: عدنان بیٹنی”