یہ حققیت ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں خیبر پختونخوا پولیس نے جانوں کے نذرانے پیش کر کے عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا پولیس کے بہادر سپوت شہید ملک سعد ، شہید صفت غیور ، شہید عابد علی اور دیگر افسران و اہلکار آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ و جاوید ہیں ، نائن الیون کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال میں سب سے زیادہ صوبہ خیبر پختونخوا متاثر ہوا ، مجھے اچھی طرح یاد ہے 2006ء کے ماہ رمضان میں سات دھماکے ہوئے 28 رمضان المبارک کو افطاری سے کچھ دیر قبل جناح پارک کے باہر چھابڑی فروشوں کے قریب ہونیوالے دھماکے میں غریبوں کے پرخچے اڑ گئے ، دن رات گونجنے والے دھماکوں نے پشاور سمیت صوبے کی فضا سے ہنسی چھین لی تھی ، کیونکہ دن رات دھماکوں نے شہریوں میں خوف پیدا کر دیا تھا , پھر اس کے بعد دور شروع ہوا خودکش دھماکوں کا ، دہشتگردوں نے پولیس ، عوام ، مساجد ، زیارات ، امام بارگاہوں اور عوامی مقامات کسی کو نہیں چھوڑا , اور پورا صوبہ جیسے حالت جنگ میں چلا گیا ،، سیاست دان بھی نشانہ بننے لگے تو عوام کی محافظ پولیس نے اس وقت تھانوں کے دروازے احتیاطی تدابیر کے لیے بند کر دیئے ، 2013ء میں جب دہشتگردی میں کمی آنا شروع ہوئی تو اقتدار میں آنیوالی تحریک انصاف کی حکومت نے پولیس میں بہتری لانے کے لیے پنجاب سے تعلق رکھنے والے ناصر درانی صاحب کو خیبر پختونخوا پولیس کا نیا سربراہ مقرر کیا ،انہوں نے چارج سنبھالتے ہی وقت ضائع کئے بغیر حکومتی تعاون سے پولیس میں ریفارمز کا عمل شروع کیا ، جس میں پولیس تھانوں کی بہتری اول ترجیح تھی ، صوبے کی روایات کا خیال رکھتے ہوئے تھانوں میں خواتین کا الگ ڈیسک قائم کروایا ، تھانوں کے پولیس اہلکاروں کو ایس او پی کے ذریعے پابند کیا گیا کہ وہ تھانے آنے والے شہریوں سے برتاو ایسا رکھیں کہ شہری کسی قسم کے مسئلے مسائل بغیر ہچکچاہٹ کے حل کروا سکیں، پولیس کو وردی سے لے کر پہلے سلام پھر کلام تک کا پابند اس بنیاد پر کیا گیا کہ عوام کا اعتماد پولیس پر پھر سے بحال ہو سکے ، آج الحمد للہ ہمارے صوبے میں وہ حالات نہیں جن سے عوام خوف میں مبتلا ہوں، لیکن پولیس میں اتنی ریفارمز کرنے کے باوجود کیوں تھانوں کے دروازے آج بھی نہیں کھل سکے ہیں ، ایک عام شہری جب اپنا مسئلہ لے کر تھانے جاتا ہے تو گیٹ پر تعینات پولیس اہلکار اسکا انٹرویو شروع کر دیتا ہے ( ہاں بھئی ، کون ہیں آپ ، کس سے ملنا ہے ، کیوں آئے ہیں ، تلاشی دیں ، ابھی مرزا صاحب مصروف ہیں ،، پھر کہیں جا کر تھانے کا دروازہ کھولا جاتا ہے ، اگر کسی نے دروازے پر تعینات اہلکار سے بحث کی تو پھر اندر جانا تو ایک طرف خود اسکے لئے معاملہ گمبھیر ہو جاتا ہے ،، بے چارہ شہری ، مسئلہ بھول کر اپنی عزت بچانے میں لگ جاتا ہے ، اندر جائے شہری تو پھر مرزا صاحب یعنی ، تھانے کی ماں کہلانے والے محرر صاحب کا سامنا ہو تو مرزا صاحب کے انداز گفتگو سے ہی ایک عام شہری ایسے گھبرا جاتا ہے جیسے دہشتگرد تو یہی ہے ،،، خواتین ڈیسک تو ویسے بھی عرصے سے تھانوں میں بند پڑے ہیں ، ناصر درانی کے ماڈل پولیس کے خواب بھی ابھی پورے ہونا باقی ہیں ، ہم آج کے موجودہ آئی جی جناب ثناء اللہ عباسی سے صرف اتنا کہتے ہیں کہ شہریوں کے لیے تھانوں کے دروازے کھولنے کے اقدامات کریں ، تھانوں کے کیمروں کو درست کروائیں اور اسٹاف ک۸ ایسی تربیت کروائیں کہ وہ عوام کے ہمدرد ہوں اور آپ کو ہر قسم کی رپورٹ بلا خوف پیش کر سکیں، پولیس والے کبھی دوسرے پولیس اہلکار کے خلاف رپورٹ نہیں لکھ سکتے کیونکہ پیٹی بند بھائی جو ہیں ،،، اسی طرح موجودہ پولیس سربراہ اگر تھانوں کے دروازے کھلوا لیں گے تو یقینا شہری بھی اپنے ہر قسم کے مسئلے لیکر بلا جھجھک تھانے آئیں گے ، جس عوامی ادارے کے دروازے عوام پر بند ہوں وہ ادارہ کیسے پنپ سکتا ہے ، ابھی ہم نے رائیڈر اسکواڈ کی کارستانیوں ، تھانوں کی عمارتوں کی حالت زار ، سمیت بہت کچھ آئی جی صاحب کے نوٹس میں لانے کے لیے لکھنا ہے ، لیکن آج ہم صرف تھانوں کے بند دروازوں کی نشاندہی کر رہے ہیں ، اس لیے حکومت سمیت پولیس حکام عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے سنجیدگی سے تھانوں پر خصوصی توجہ دیں ۔
اہم خبریں
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments