اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
ماسٹرز کی آٹھ ڈگریاں رکھنے والے شہباز خان بنوں شہر کی غلہ منڈی میں رات کے وقت تین ہزار روپے ماہوار کے عوض دکانوں کی چوکیداری کر رہے ہیں، ہمارے یہاں یہی ہے ٹیلنٹ کی قدر …
شہباز خان کا تعلق شمالی وزیرستان کے پسماندہ ترین علاقے شوال کے وزیر قبیلے سے ہے۔ ان کا والد محنت و مزدوری کی خاطر ایک عرصے سے ضلع بنوں کے علاقہ ہوید میں زندگی کے آیام گزار رہے ہیں، شہباز خان نے سال 1986ء میں علاقہ ہوید میں آنکھیں کھولیں۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول موسیٰ خان جانی خیل سے حاصل کی۔ مڈل تک تعلیم گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول حکیم خان ہوید سے اور نہم دہم کے امتحانات گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول غوریوالہ سے پاس کئے۔ شہباز خان نے میٹرک کے بعد 2003ء میں قرأت اور 2006ء میں حفظ القرآن اور شہادۃ العالمیہ(فراغت درس نظامی) کی اسناد حاصل کیں۔
2009ء میں بنوں بورڈ سے ایف اے کرنے کے بعد 2011ء میں بی اے کا امتحان علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے پاس کیا , اُنہوں نے 2013ء میں ایم اے عربی کی ڈگری بنوں یونیورسٹی سے حاصل کی۔2015ء میں گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان سے پشتو میں ایم اے کیا۔ 2016ء میں بنوں یونیورسٹی سے ایم اے انگلش اور 2017ء میں یہیں سے ایم اے ہسٹری کی ڈگری حاصل کی۔ رواں برس 2020ء میں بنوں یونیورسٹی سے ہی ایم ایس سی اکنامکس کیا اور ایم اے ایجوکیشن کی ڈگریاں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے حاصل کی ,, اسی طرح اُنہوں نے مختلف اداروں سے ڈپلومے بھی کئے ہیں۔ 2008ء میں بنوں بورڈ سے عریبک آنرز) (مولوی فاضل) 2009ء میں کرم پولی ٹیکنیک کالج ٹاؤن شپ بنوں سے ایک سالہ کوانٹیٹی لینڈ سرویئر,چھ ماہ کمپیوٹرشارٹ کورسز, تین ماہ ڈی بی ای ایل ان انگلش کا ڈپلومہ جبکہ تین ماہ کا ٹائپنگ سر ٹیفکیٹ بھی حاصل کیا۔
شہباز خان کے چار بہن بھائی ہیں لیکن شہباز الگ گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے خیبر ٹائمز کے نمائندے روفان خان کو بتایا کہ میں نے ہار نہیں مانی ہے اتنی غربت کے باوجود اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے, مجھے یقین ہے , ان شاء اللہ ایک دن کامیابی میرے قدم چومے گی، میں اپنے ملک کا نام روشن کرنا چاہتا ہوں۔
اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ میں نے نجی اداروں میں کام کیا ہے اور مختلف اداروں کو ملازمت کیلئے درخواستیں بھی دی ہیں، نائب قاصد سے لے کر کلرک تک کی نوکری کیلئے کوشش کی لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مجھے کہیں ملازمت نہیں مل رہی۔ اُنہوں نے کہا کہ اب میں بنوں شہرکی غلہ منڈی میں دوسرے بندے کے ساتھ رات کے وقت دکانوں کی چوکیداری کرتا ہوں جس کے عوض مجھے تین ہزار روپے ملتے ہیں اور صبح کے وقت میں تین چار طلبہ کو ٹیوشن پڑھاتا ہوں جس سے مجھے چار ہزار روپے ملتے ہیں۔ مہینے کے سات آٹھ ہزار روپے بنتے ہیں جو میرے لئے بہت کم ہیں کیونکہ دو ہزار روپے میں گھر کا کرایہ دیتا ہوں باقی رقم سے گھر کے اخراجات پورے کرنا میرے لئے ممکن نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ ملازمت کیلئے رشوت طلب کی جاتی ہے۔ پیسے ہوں تو نوکری مل جاتی ہے ورنہ نہیں۔ اب بھی مجھ سے ایک چھوٹی سی سیٹ کیلئے چار لاکھ روپے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے مگر میرے پاس اتنے پیسے کہاں ؟
اُنہوں نے خیبر ٹائمز کے ذریعے مطالبہ کیا کہ مجھے کوئی اچھی سی نوکری دی جائے تاکہ میں وطن عزیز کا کار آمد شہری بن سکوں، اور اپنے بچوں کی کفالت اچھے طریقے سے کر سکوں اور مزید تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھ سکوں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا، کہ موجودہ مہنگائی کے اس دور میں وہ کسی کتاب خریدنے کا بھی طاقت نہیں رکھتا۔ اگر کہیں نوکری لگ جائیں، تو ایم فیل اور مختلف مضامین میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا ان کیلئے کوئی مسئلہ نہیں۔
اگر شہباز خان کی زندگی دیکھا جائے تو ایک تو ان کے ساتھ ذیادتی ہے، دوسرا سب سے بڑا نقصان یہ کہ اگر بچے انہیں دیکھ لیں تو وہ سوچنے پر مجبور ہوجائینگے، کہ اگر وہ پڑھے، ڈگریاں حاصل کریں تو اس سے بھی شہباز خان بن جائیگا؟ اس س قبل کہ ہمارے وطن عزیز کے ایسے ذہین افراد علم کی راہ رکاوٹ ثابت ہوسکے؟ اس سے قبل ایسے افراد کو ذمہ دار شہری بنانا حکومت کا کام ہے۔ تا کہ وہ عملی میدان میں اپنی قابلیت کے جوہر دیکھا سکے۔
شہاب خاب کے ویڈیو انٹرویو دیکھنے کیلئے : یہاں پر کلک کیجئے۔۔۔
روفان خان خیبرپختونخوا کے شہر بنوں میں دی خیبر ٹائمز کا نمائندہ خصوصی ہے، جبکہ اس کے علاوہ بلاگر رائیٹرز اور مختلف میگزین رسالے اور اخبارات کیلئے لکھتے رہتے ہیں۔