قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد فاٹا قصہ پارینہ بن چکا ہے۔لیکن سابق “شاہی” دورکی کچھ نشانیاں اب بھی باقی ہیں۔خاصہ دار پولیس فورس اس میں سے ایک ہے جو آہستہ آہستہ کسی حد تک بندوبستی علاقوں کی پولیس بنتی جارہی ہے۔فاٹا انضمام سے لیکر آج تک جتنے بڑے مسائل نے سر اٹھایا ہے ان میں ایک قبائلی علاقوں کی وہ ورک فورس ہے جو پولٹیکل ایجنٹ نے اپنی افسر شاہی قائم کرنے کیلئے پیدا کی ۔انہیں پالاپوسا اور ان سے اپنی مرضی کا کام لیا۔ پھر انہیں کہا گیا کہ انضمام کے مراحل میں بتدریج انہیں بھی مستقل کردیا جائیگا۔لیویز یا خاصہ دار اس علاقے میں ایسی خلائی مخلوق ہے جو بہت ساری جگہوں پر تو کاغذوں میں بھی نہیں ملتی،جن کو پولیس کے محکمے نے جانچ پڑتال کے بعد پولیس فورس میں ضم کردیا ۔اس کے علاوہ بھی ایسے 50فیصد سے زائد اہلکار ہیں جو اپنی نوکریوں کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ پی اے صاحب نے گھر کے پودوں کی دیکھ بھال کے لئے دس مالی رکھنے ہوں یا گھر کے کام کاج کیلئے بندہ مقرر کرنا ہو،بادشاہ سلامت نے ایسے لوگ اپنے خرچ پر رکھ لیتے ۔صرف وردی پہنا دی جاتی اور پی اے صاحب کے ایک حکمنامے پر خاصہ دار بھرتی ہو جاتا۔ اب جب انضمام کیلئے فائلیں کھلیں تو پتہ چلا کہ ایسے بہت سے خاصہ دار جو عرصہ دراز سے ملازم تھے ہوائی کھاتے میں ہی انتظامیہ کے منظور نظر تو رہے لیکن انکا ریکارڈ تک دستیاب نہیں،۔محکمہ پولیس کی جاںب سے جب چھانٹی کی گئی تو پتہ چلا کہ یہاں تو سب گول مال ہے۔ایک ہی ضلع میں کئی کئی درجن ڈی ایس پیز پھر رہے ہیں ،کئی ایس ایچ اوز تھے جو جانچ پڑتال کے بعد واپس خاصہ دار بننے پر بھی راضی ہیں لیکن شرط صرف یہ ہے کہ انہیں نکالا نہ جائے ،قبائل کے ساتھ اس ظلم میں صرف پی اے ہی ملوث نہیں بہت سے ملکان اور دیگر بااثر لوگ بھی نوکریوں کی بندر بانٹ میں شریک ہیں،جس نے ملک کو خوش کرنا ہو تین خاصہ دار بھرتی کرکے ساتھ کردئیے۔ لیکن کیا کریں کہ سرکار یہ نہیں مانتی۔محکمہ پولیس میں تو وہی آئے گا جو کم سے کم اپنی پرانی سروس کے کاغذ تو دکھا سکے،کدھر کے لوگ کدھر بھرتی ہوئے ،اب بات کریں ان کی تنخواہوں کی تو یہ بھی پی اے کے “خرچے”کی طرح ادھر سے ہی پوری ہوتی رہی جہاں سے اور مال آتا یا بنتا۔جان کی امان پائوں تو عرض کروں ،ڈسپلن فورس ایسے نہیں ہوتی ،محکمہ پولیس نے اب انضمام زدہ علاقوں میں کام شروع تو کر دیا ہے۔ لیکن وہاں اس اونٹ کی کل کو سیدھا کرنےمیں کچھ وقت تو لگے گا،مظاہرہ کرنے والے بے روزگار ہیں تو یہ بھی کچھ کم بڑا مسئلہ نہیں،آگے کنواں اور پیچھے کھائی والی صورتحال میں ،،،،یہ انضمام کا یہ اونٹ کب اور کس کروٹ بیٹھے گااس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہوجائیگاخاصہ داراور لیویز اہلکاروں نے بھی پولیس میں انضام کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ اس کی وجہ یہ تھ کہ ان کے پہلے والے مزے ختم ہوگئے ہیں۔ پولیٹیکل ایجنٹ کی طرح ان کی بھی پانچویں انگلیاں گھی میں تھیں ۔ اپنی مرضی سے ڈیوٹی کرتے۔ دہشت گردی کے دور میں تو اکثریت غائب تھی۔ اسی طرح اپنی مرضی کی پوسٹوں پر تعیناتی کے لئے لاکھوں روپے کے” نذرانے” بھی دیتے تھے۔ اب واپس آتے ہیں پولیس میں انضمام پر ، ان اہلکاروں میں زیادہ تران پڑھ ہیں۔ نرے انگوٹھا چھاپ ۔ ان کو دفعات کابالکل پتہ نہیں ہے۔ لیویز اور خاصہ دار میں جو بندہ صوبیدار تھا اس کو ڈی ایس پی لگا دیا گیا اور جو نائب صوبیدار تھا وہ ایس ایچ او لگ گیا۔ خاصہ دار اور لیویز فورس میں نوکری کے لئے کوئی تعیلم ضروری نہیں تھی اورپولیٹکل انتظامیہ یہ نوکری ملکان کو بطور رشوت کے دیتی۔ دوسری بات یہ کہ فاٹا پولیس کے لئے کوئی یونیفارم نہیں بنایا گیا ہے اب بھی لگتا ہے کہ چیک پوسٹوں پر خاصہ دار یا لیویز اہلکار کھڑے ہیں ۔قبائلی علاقہ جات میں جو جرائم ہوتے ہیں ان کی دفعات کا ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ ان جرائم میں یا اس کیس میں ان پر کون سی دفعہ لاگو ہوتی ہے ۔کہنے کا مقصد یہی ہے کہ اگر حکومت قبائلی علاقوں کا انضمام کرتی تو اس کے لئے باقاعدہ کوئی منصوبہ بندی کرتی پولیس اہلکار اب بھی علاقےکے لوگوں کے مسائل جرگے سسٹم کے ذریعے حل کرتے ہیں۔ ان کو باقاعدہ تربیت کی ضرورت ہے
تحریر عبدالصبور خٹک
Load/Hide Comments