کورونا ۔۔۔ تین عورتیں تین کہانیاں تحریر: عبدالصبور خٹک

آج کل کورونا کو لیکر ہر شخص ڈاکٹر بنا ہوا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں، اس میں ہماری خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں انکی عجیب عجیب روایتی کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں۔ میں نے سوچا آپ کو بھی یہ کہانیاں سنانے کا شرف بخش دیا جائے۔ یقین مانئے اگر کسی چینل کو یہ اطلاعات ملیں تو وہ ایک ایک افواہ پر پوری ٹرانسمیشن کرکے ریٹنگ کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالینگے۔
آج کل ہر طرف ہر جگہ کورونا کا ذکر زیر بحث ہے، آپ ٹی وی آن کریں، اخبارات دیکھیں یا کسی محفل میں بیٹھیں، آپ کو کورونا کے علاوہ بات کرنے کو کوئی دوسرا موضوع نہیں ملے گا، اور بحث کورونا سے شروع ہو کر کورونا پر ہی ختم ہو گی، اور ہر کوئی اس پر اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال کرتا نظر آئیگا اور ہر کوئی اس کے بارے میں نت نئی منطق پیش کریگا، ہاں ایک خاص بات یہ کہ ہر کوئی ڈاکٹر بنا ہوا ہے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اس بحث میں کسی سے پیچھے نہیں، جو یہ سمجھتی ہیں کہ یہ وباء نہیں ہے، پہلے بھی یہی نزلہ ، زکام اور بخار ہوا کرتا تھا، اور اب بھی یہی نزلہ ، زکام اور بخار ہے اس سے پہلے کبھی اس کو بطور بیماری نہیں لیا گیا تھا، مگر اب کیوں ایک معمولی زکام یا تھوڑے سے بخار کھانسی کو اتنا سنجیدہ لیا گیا ہے ,, ضرور اس کے پیچھے کوئی راز پنہاں ہے ہم اب بھی اس کو ایک نارمل بیماری سمجھتے ہیں ہم اس کو اتنی خطرناک بیماری نہیں سمجھتے ,, جب میں نے اس سے کہا کہ اگر یہ عام بیماری ہوتی تو اس سے 215 سے زائد ممالک کیوں متاثر ہوتے ؟ اس وباء پر مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی تین خواتین نے مختلف آراء پیش کیں جس میں ایک خاتون نے کہا کہ بے شک یہ بیماری ہے مگر اتنی خطرناک نہیں کہ اس سے جان ہی چلی جائے اس کے پیچھے یہودی لابی سرگرم ہے , میں نے کہا کہ اگر یہودی لابی سرگرم ہے تو جن ممالک میں یہودی رہتے ہیں وہاں کیوں یہ وباء پھیلی ہے اگر ان کی چال ہوتی تو وہاں پر اس بیماری کو نہیں پھیلنا چاہیئے تھا پھر اس کا جواب ان کے پاس نہیں تھا, دوسری محترمہ جو اعلی تعلیم حاصل کر رہی ہیں فرماتی ہیں بے شک یہ ایک بیماری ہے بلکہ وباء ہے اللہ تعالی ہم سے ناراض ہے اللہ تعالی جب ہم سے ناراض ہوتا ہے تو انسانوں پر ایسی وبائی ییماریاں نازل کرتا ہے اس پر ہم کو اللہ تعالی سے رجوع کرنا چاہیئے جتنا زیادہ مغفرت مانگیں اتنا زیادہ بہتر ہوگا کہتی ہیں حالانکہ یہ بیماری پہلے بھی موجود تھی لیکن اس سے پہلے اس سے اتنی زیادہ اموات میں نے نہیں دیکھیں .. تیسری خاتون بھی اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور بہت اہم پیشے سے وابستہ ہیں , ماشاء اللہ ریسرچر ہیں,, سوشل میڈیا پر وہ بھی کچھ عجیب خیالات رکھتی ہیں کورونا کے حوالے سے وہ کہتی ہے کہ میں بالکل مانتی ہوں کہ یہ بیماری ہے مگر جتنا اس بیماری کو میڈیا میں اچھالا گیا اتنی خطرناک بھی نہیں ہے کہتی ہیں اس بیماری کی شروعات چائنا سے ہوئی اور اچانک یعنی بہت ہی تیزی کے ساتھ یہ دیگر ممالک میں پھیل گئی , ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں مکمل خاموشی تھی کہ اچانک پتہ چلا,, آئی ایم ایف نے متاثرہ ممالک کے لئے مالی امداد کا اعلان کر دیا ہے, یہ اعلان ہوتے ہی پاکستان میں کورونا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور آجکل پاکستان کورونا کے مریضوں میں کافی آگے ہے اور اموات کی تعداد میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے دوسری جانب ان کی عجیب منطق یہ بھی تھی کہ جب کسی مرد کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ جاتا ہے تو اسے زہر کا انجیکشن لگا کر اس کی زندگی کا خاتمہ کیا جاتا ہے یا پھر دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد کو کورونا میں ڈال دیا جاتا ہے .. میں نے ان سے کہا کہ محترمہ یہ آپ کی ذاتی رائے ہے لیکن میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا .. ان تین خواتین کی اپنی اپنی رائے ہے جو کہ اپنی جگہ ہے .. ان تین خواتین کی کہانیاں لکھنے کا مقصد یہی تھا کہ ابھی بھی بہت سے لوگ اس وائرس کو غیر سنجیدہ لے رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ مرض بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے حالانکہ حکومت اور طبی عملہ لوگوں کو سمجھا سمجھا کر تھک چکا ہے کہ خدارا اس کو مذاق نہ سمجھو اس کے باوجود لوگ ہیں کہ اسے مذاق میں اڑا رہے ہیں اور احتیاطی تدابیر نہیں اپناتے اور ہر چیز کا ذمہ دار حکومت کو مورداالزام ٹھہرایا جاتا ہے ہے حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ بطور اچھے شہری ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس موذی سے بچاؤ کیلئے اپنا کردار ادا کریں …

اپنا تبصرہ بھیجیں