بصارت سے محروم خیبر پختونخوا کی ضلع مردان کے علاقہ شیرگڑھ سے تعلق رکھنے والی ریحانہ گل جو اپنی 26 سالہ زندگی میں کئی مشکلات و تکالیف سے گزرچکی ہے، تاہم لگن، حوصلے اور محنت و جدوجہد کا راستہ اپناتے ہوئے خود کو اس مقام تک پہنچا دیاہے کہ اب دوسروں کیلئے بھی آواز اٹھاکر ایک مثال بن گئی ہے۔ خیبر پختونخوا کے سرکاری ریڈیو ایف ایم 92.2 میں بطور ریڈیو جوکی ( آر جے ) کام کرنے والی ریحانہ گل جوبچپن ہی سے بصارت سے محروم ہے”مشالونہ” کے نام سے پروگرام کرتے ہوئے معزور افراد و خواتین کے ہر طرح کے مسائل سے متعلق بھرپور آواز اٹھا رہی ہے۔ قدرت نے ریحانہ کو پیدائشی طورپر نظر سے محروم کر رکھاہے، لیکن انہیں خوبصورت آواز کی شکل میں ایک اور خصوصیت دیکر آج وہ ریڈیو کی میزبان بن گئی ہے۔ جوانسان بصارت جیسے نعمت سے محروم ہو یہ احساس صرف ان کو ہوتا ہے، کہ زندگی گزارنا کتنا مشکل کام ہوتاہے۔
ریحانہ جس کاتعلق مردان ،شیرگڑھ کی ایک غریب خاندان سےہے، جب 6 سال کی تھی، بھائیوں نے راوالپنڈی کےایک ہسپتال سےعلاج کروایا ، تاہم اس زمانےمیں دور علاج ڈاکٹروں کیجانب سےبتایا گیا کہ پیدائشی طور پر وہ نظر سےمحروم ہیں۔ ریحانہ کو بچپن ہی سے پڑھنے کا شوق تھا اور یہ ارادہ کرکے کہ وہ ایک دن مقام ضرورحاصل کریگی۔ ریحانہ نے مردان کے علاقے شمشادآباد میں واقع نابینا افرادکیلئے مختص ایک سکول میں داخلہ لیا اوراسی طرح وہاں سےمیٹرک پاس کرکے تعلیم کا سفرجاری رکھتے ہوئے کالج جاپہنچی اوربالا آخر پشاور یونیورسٹی سے سائیکالوجی میں ڈگری حاصل کرلی۔ ریحانہ کےمطابق جب ماسٹر مکمل کیا تو ایک نجی سکول میں ٹیچنگ شروع کیا چونکہ انکو گھروالے بھی سپورٹ کرانے ہوتے ہیں، لہذا فوری طور پر انکے ہاں ٹیچینگ کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ کچھ عرصہ بعد ان کےایک جاننے والے نے بتایا کہ اللہ پاک نےآپ کوبہت خوبصورت آواز سے نوازا ہے کیوں نہ کسی ریڈیوسٹیشن میں بطور آر جے کام شروع کریں؟ جاننے والے نے بات کی پختونخوا ریڈیو میں۔ ایک دن جب وہ ٹسٹنگ کیلئے آئی تو پختونخوا ریڈیو کے ایک پرو ڈیوسر نے انہیں بتایا کہ واقعی ان کی آوازمیں کافی جان ہےاور وہ پروگرام کرنے کی پوری طرح اہل ہے۔ لہذا اسی پرو ڈیوسر نے جب ڈائیریکٹر ریڈیوسٹیشن کوبتایا تو کچھ دنوں بعدانہیں باقاعدہ طور پر ریڈیو کی میزبانی کااعزازملا۔ ان کےلئےیہ کافی خوشی کامقام تھاکہ وہ اب معزور افراد، خواتین کے ہر طرح کے معاشرتی مسائل کےایشوز پر پروگرامز کرکے ان کےلئے بھر پور آواز اٹھاتی رہیگی۔
لہذا لگ بھگ ایک سال قبل انہوں نے”مشالونہ” کے نام سے پروگرام شروع کیاہواہے۔ اپنےپروگرام میں وہ معزور افراد کےصحت، تعلیم، روزگار جیسے مسائل کو اجاگر کرتی رہتی ہے، اور پروگرام کیلئے باقاعدہ طور پر متعلقہ آفیشلز و حکام کو بلاکر ڈسکشن، تبصرے اور تبادلہ خیال کیا جاتاہے۔ “مشالونہ” پروگرام کواب عوامی سطح پر بھی کافی پزیرائی ملی ہے۔ ریحانہ کےمطابق شروع میں کئی لوگوں کوانکا ریڈیو پرپروگرام اچھانہیں لگتاتھا جیسا کہ پشتون معاشرے میں انسان کو یہاں کےروایات کا بھی خیال کرنا پڑتاہے۔
ساتھ ساتھ انکےلئےیہ نیاشعبہ بھی تھا اور انہوں نے ریڈیو کی میزبانی کی ذمہ داری کو اتنا آسان نہیں لیاتھا اسلئے بہت محنت کرکے
جب انہوں نےدوران ریڈیو میزبانی ڈیلیور کیا تو اب ان کو اچھے الفاظ میں سراہا جارہاہے۔ ماہانہ اتنےپیسے تو نہیں بنتے تاہم معزوروں، خواتین کی ایشوز کو اٹھا کر اب وہ کافی مطمئن ہے۔ بصارت کی محرومی کےباعث چونکہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھ پاتی لہذا ان کو گھر سے ریڈیو سٹیشن آتے جاتے وقت، گھومنے پھرنے، پروگرام کرتےوقت ریڈیو کا سار اسٹاف ان کےساتھ بھرپورتعاون کرتاہے۔
ریحانہ کےمطابق انکی کوشش ہےکہ وہ آگے جاکر اپنی زندگی میں محنت ولگن سے مزید کئی کامیابیاں حاصل کرسکیں۔ انسان جب محنت کرلیں تو انکےلئے آگے راستے خود کھول جاتےہیں۔ اپنی زندگی میں کئی مشکلات سے گزر کر ریڈیو کی میزبانی تک ریحانہ کےکہتی ہے، کہ معاشرے کے دیگر معزور افراد یا بصارت سےمحروم افراد تعلیم حاصل کرلیں تویقیناً ان کی طرح وہ بھی زندگی میں ایک کامیاب انسان بن سکتےہیں، لہذاایسے لوگوں کو مواقع دلواکر آگے آناچاہیئے، تاکہ وہ کسی بھی شعبےمیں اپنی ملک وقوم کی خدمت کرسکیں۔