چیف جسٹس آف پاکستان کا این ڈی ایم اے پر شدید برہمی کا اظہار، وزیراعظم پوری این ڈی ایم اے کو فارغ کردیں

اسلام آباد ( دی خیبرٹائمز کورٹس ڈیسک ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کورونا از خود نوٹس کیس میں این ڈی ایم اے پر شدید برہمی کا اظہار کیا، ان کا کہنا تھا، کہ وزیر اعظم سے کہہ دیتے ہیں، کہ وہ پورا نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ( این ڈی ایم اے ) فارغ کردیں، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ عدالت کے ساتھ کیسے جانا چاہئے ؟
پانچ رکنی بینچ کا کیس سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا، کہ چین سے جس شخص کے نام سے مشینری منگوائی گئی ہے، ان کے دستاویزات کہاں ہیں؟ جو گزرے ہوئے تین سماعتوں میں پیش نہ کرسکے؟ اور نہ ہی کوئی سامنے آیا؟
بینچ میں شامل جسٹس اعجازالاحسن نے عدالت میں موجود این ڈی ایم اے کے نمائندے سے پوچھا کہ کورونا کی روک تھام کیلئے جو مشینری باہر سے درآمد کی گئی ہے، اس کی تفصیلات فراہم کی جائے؟ این ڈی ایم اے کے نمائندے نے بتایا کہ ایک نجی کمپنی نے ایمپورٹ کی ہے، نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ نے ایمپورٹ نہیں کی ہیں۔


چیف جسٹس نے بینچ کو بتایا کہ این ڈی ایم اے عدالت کی تضحیک کررہی ہے، وزیراعظم انہیں ان کے منصب سے ہٹادیں۔ چیف جسٹس کہتے ہیں، کہ ابھی تک کمپنی کا مالک سامنے نہیں آیا ہے، جس کا مطلب ہے ان کیلئے قانون یا عدالت کوئی معنی نہیں رکھتا؟
عدالت این ڈی ایم اے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں، سامان کو ایمپورٹ کرنے کیلئے این ڈی ایم اے نے ایک ہی کمپنی کو رعایت دی ہے؟ چیف جسٹس نے بینچ کو مخاطب کرکے کہا کہ چیئرمین این ڈی ایم اے کوہٹادیاجائے؟ بلکہ پوری این ڈی ایم اے کا خاتمہ کیا جائے؟
عدالت کسی کو بھی ایک روپیہ بھی کھانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
جسٹس گلزار نے ریکارکس سک دئے، کہ عدالت کے ساتھ مذاق نہیں ہونا چاہئے، این ڈی ایم اے چاہے بہت طاقتور ادارہ کیوں نہ ہو، لیکن عدالت کو کوئی بھی مذاق نہ سمجھے، انہوں نے چین سے کورونا بچاؤ کا سامان خریدنے پر تنقید کیا۔
بینچ نے اٹھارنی جنرل سے کہا کہ بتایاجائے ؟ وہ ویکسین کہاں هیں، یا ان کے درامد کرنے کےڈاکومنٹس کہاں ہیں، جو باہر سے منگوائے گئے ہیں.
عدالت نے این ڈی ایم اے کے رپورٹس مسترد کردئےجو اربوں روپے نو دو گیارہ تو ہوگئے ہیں، لیکن جان چھڑانے کیلئے این ڈی ایم اے نے صرف چار کاغذات جمع کردئے ہیں، این ڈی ایم اے جس طریقے سے پیسے خرچ کرہی ہے، وہ عدالت کی سوچ سے بھی بالاتر ہے۔
این ڈی ایم اے ٹڈی دل کا مقابلہ کرنے کیلئے جہاز منگوارہے ہیں، لیکن یہ سب کچھ صرف زبانی جمع خرچ نہیں چلے گی، اس کو پروف کرنے کیلئے کاغذات میں بھی پروف کریں، کہ مشینری ادویات کی خردیداری کس نے کی؟ کیسے کی؟یہ سب کچھ عدالت میں ثابت بھی کرنے ہونگے، کیونکہ عدالت ملک کے ہر شہری کا جوابدہ ہے۔
اٹھارنی جنرل نے عدالت سے استگعا کی کہ وہ تمام کاغذات اور ثبوت جمع کرکے پیش کرینگے،
عدالت نے بھی زبانی جمع خرچ کی بجائے تمام ٹھوس ثبوت جمع کرنے کو دوبارہ طلب کرلیا، تاہم اس دوران پورا بینچ اور چیف جسٹس آف پاکستان نے چیئرمین این ڈی ایم اے، پوری این ڈی ایم اے اہلکاروں اور پر شدید برہمی کا مظاہرہ کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں