خصوصی تحریر ۔۔۔۔۔ ناصر داوڑ
شمالی وزیرستان کے حالات سے ایک پریشان قبائلی دکاندار
میران شاہ کی مارکیٹ میں موجود پرانے جانے پہچانے دکاندار محمد سبحان نے دیکھتے ہی سلام دعا کے بعد ساتھ میں واقع چائے کے ہوٹل والوں کو کڑک دودھ پتی اور ساتھ ہی وہاں کے مشہور سوہن حلوے کا آرڈر دیدیا، گپ شپ شروع ہوئی جس کے دوران محمد سبحان کے چہرے پر افسردگی ، نامعلوم خوف اور پریشانی عیاں تھی، وہ خوف اور پریشانی چھپانے کی کوشش کر رہے تھے، مگر سبحان کے ہنسی مذاق میں واضح فرق تھا، پریشانی اور ٹینشن کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی، جسے پہلے تو انہوں نے چھپانے کی کوشش کی مگر گزرے ہوئے ایام کو یاد کرتے ہوئے وہ دکھی ہو گئے ،، ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کے دوران ان کا کروڑوں روپے کا نقصان ہو گیا، 15 جون 2014ء کو پاک فوج کے ترجمان عاصم سلیم باجوہ صاحب نے تین مہینے میں واپسی کا جو وعدہ کیا تھا، اس کے برعکس آج بھی ہزاروں خاندان رُل رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان کا خاندان ساڑھے تین سال بعد جب واپس اپنے گھر پہنچا ہے تو ان کا گھر میر علی اور میرانشاہ کے بازاروں کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا ہوا تھا، جو ان کے بڑوں نے انتہائی محنت کے ساتھ تعمیر کیا تھا۔۔
اب سر چھپانے کیلئے جائیں تو کہاں جائیں ؟؟ ہر طرف ویرانی اور ہر ایک ہی اپنے مسمار شدہ گھروں کے ملبے پر نوحہ کناں ہے، ہر ایک شخص گھروں کے ملبے کو ہٹا کر سر چھپانے کیلئے خیمے لگانے کیلئے صفائی کر رہا ہے مگر یہ کام بھی اوزار کے بغیر ممکن نہیں اور کوئی دکان بھی موجود نہیں جہاں سے اوزار خریدے جا سکیں، بہرحال خدا خدا کر کے بچوں کے سر چھپانے کیلئے انہوں نے بھی خیمے لگا لئے، جبکہ مرد حضرات ساتھ میں موجود مسجد میں جس کا برا حال تھا رات گزارنے چلے گئے، اگلے روز پھر سب چھوٹے بڑے اور مرد و خواتین صفائی کے کام میں لگ گئے، علاقے میں کوئی دیہاڑی دار مزدور بھی نہیں کیونکہ جو بھی خاندان آ رہا ہے، اپنے کاموں میں لگ جاتا ہے اور مالی پوزیشن بھی سب کی پہلے جیسی نہیں رہی، اس لئے بھی محمد سبحان سمیت ہر آنے والے خاندان کا ایک ہی حال ہے، ایک طرف کسی کا گھر نہیں تو کسی کے گھر کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے، دوسری جانب میران شاہ کے بازاروں میں سامان سے بھری ان کی دکانیں اور گودام بھی نہیں رہے، بہر حال جیسے تیسے لوگوں نے ایک اور امتحان کا سامنا شروع کیا، حالات کا مقابلہ کرتے کرتے گزارے کے مکانات تعمیر کئے اور دکانیں بھی، حکومت نے ایک سال بعد گھروں کے نقصانات کا سروے شروع کیا، جس کے مطابق انہیں بھی گھر کے نقصان کی مد میں 4 لاکھ روپے کا چیک تھما دیا، 16 کمروں پر مشتمل گھر حجرہ چار دیواری، واش رومز اور گھریلو سامان جس کی مالیت ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد تھی، اس کی قیمت 4 لاکھ لگائی گئی، یہ 4 لاکھ بھی انہوں نے غنیمت سمجھ کر قبول کر لئے،
محمد سبحان کہتے ہیں کہ گھر گیا، دکان گئی، کروڑوں کا سامان گیا ، اس کا دکھ اپنی جگہ لیکن شکر ادا کیا کہ سب سے بڑی بات اب وزیرستان میں امن آ گیا ، ہم نے سکھ کا سانس لیا، تاہم ایک ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد علاقے میں اکا دکا ٹارگٹ کلنگ کے واقعات شروع ہو گئے، جس سے لوگ پھر سے پریشان ہوئے، تاہم سب ہی اپنے کاروبار شروع کرنے اور مکانات کی تعمیر میں مگن ہیں،
مگر دیکھتے ہی دیکھتے شمالی وزیرستان کو اب ایک بار پھر بدامنی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، اب ہر طرف کالے شیشوں والی گاڑیوں میں خوف کے سائے کی طرح مسلح نقاب پوش گھوم رہے ہیں، بھتے کے خطوط ملنے شروع ہو گئے ہیں، یہاں سبحان کے خوف اور پریشانی کی وجہ بھی معلوم ہوئی، کیونکہ انہیں بھی کہا گیا ہے کہ ایک کروڑ روپے کے صدقے یا زکوۃ کا انتظام کریں، بصورت دیگر تمہاری خیر نہیں، انہوں نے گھر کی تعمیر نو پر ایک کروڑ روپے سے زائد کا خرچہ کیا ہے، بڑی مشکل سے اپنے پرائے اور دوستوں سے ادھار لیکر خاندان کا پیٹ پالنے کیلئے دکان بنائی، اب اگر وہ زندہ رہنا چاہتا ہے تو خوف کی علامت مسلح نقاب پوشوں کیلئے بھی انتظام کرنا ہوگا، ورنہ انجام موت ہے، محمد سبحان شاید اپنی پراہ نہ کرتا مگر اس کے پیچھے پورا خاندان ہے، اس کے بچے ہیں، ضعیف والدین اور نیا نیا کاروبار ہے، اب تو صدقہ دینا ہی ہو گا، لوگوں سے جو ادھار لیکر کاروبار شروع کیا ہے، اس کا کیا بنے گا؟؟
مقامی پولیس اور انتظامیہ کے پاس بھی اس کا جواب نہیں ہے، بس ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ حالات ٹھیک نہیں ، ہر طرف بدامنی نے پھر سے ڈیرے ڈال لئے ہیں، جس کی وجہ سے عام قبائل سر جوڑ کر بیٹھے ہیں،
میرانشاہ سے رکن صوبائی اسمبلی میر کلام وزیر کا کہنا ہے کہ پاک فوج نے یہاں قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں کو دورے کروا کے بتایا ہے کہ شمالی وزیرستان کے تمام علاقے دہشتگردوں سے کلیئر ہو چکے ہیں، 4 ہزار سے زائد دہشتگرد مارے جا چکے ہیں، لیکن اب ایک بار پھر علاقے میں نقاب پوشوں کا راج ہے، جو جب چاہیں کسی کو بھی اٹھا سکتے ہیں، جس کو چاہے دھمکا سکتے ہیں اور اگر کوئی ان کے خلاف بات کرتا ہے تو اس کو بھی ہٹا دیتے ہیں، خود میر کلام وزیر کہتے ہیں کہ انہوں نے جب دہشتگردوں کے خلاف باتیں کرنا شروع کیں تو میرانشاہ سے پشاور جاتے ہوئے میر علی بازار میں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا، جس کے دوران ان کی گاڑی کو نقصان پہنچا تاہم خوش قسمتی سے وہ، ان کے ساتھ گاڑی میں موجود سیکیورٹی اہلکار اور ان کا ڈرائیور معجزانہ طور پر بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ میر کلام کے مطابق موجودہ حالات آپریشن ضرب عضب سے قبل کے حالات سے بھی بدتر ہو گئے ہیں، جو کسی بھی قبائلی فرد کی سوچ سے بالاتر ہیں۔
وزیرستان اب رہنے کے قابل نہیں رہا، قبائلی جلیل خان
جلیل خان نامی ایک قبائلی نے بتایا کہ وہ کوئی کاروبار نہیں کرنا چاہتا، اس کے دو بیٹے بھائی اور ایک بھتیجا عرب امارات میں محنت مزدوری کرتے ہیں، شمالی وزیرستان میں بدامنی کی دوسری خطرناک لہر سے بچنے کیلئے پشاور واپس آ کر کرایے کا ایک مکان حاصل کر لیا ہے، جہاں وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کر رہا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ان کی کسی سے دشمنی نہیں، لیکن اب صرف خوشی غمی میں شرکت کرنے کیلئے خود وزیرستان جاتے ہیں اور فوری طور پر واپس پشاور آتے ہیں، جلیل خان کہتے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب والے حالات سے اب حالات بہٹ خطرناک ہیں، اس سے قبل ان کے پاس بھی اسلحہ ہوتا تھا، لیکن اب تو ان کے پاس اپنی حفاظت کیلئے اسلحہ بھی نہیں، جبکہ مسلح نقاب پوشوں کا ہر طرف راج ہے، تو ایسے میں وہ وہاں وزیرستان میں رہنے کیلئے تیار نہیں، جلیل خان کے مطابق صرف وہ ہی نہیں جو بھی شخص اس قابل ہے کہ وہ وزیرستان سے باہر رہ سکتا ہے وہ وہاں سے نقل مکانی کر چکا ہے۔ شمالی وزیرستان میں موجود انتظامیہ کے ایک ذمہ دار اہلکار سے موقف لینے کی کوشش کی گئی، تاہم اس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے، کیونکہ اب نظام سیکیورٹی اہلکاروں اور اداروں کے پاس ہے، مقامی انتظامیہ بھی دیگر قبائلیوں کی طرح ایک ہاتھ سر پر جبکہ دوسرا ہاتھ منہ پر رکھ کر آرام فرما رہی ہے۔
شمالی وزیرستان کا آپریشن متاثرہ خاندان۔۔
پی ڈی ایم اے کے ذیلی ادارے کمپلیکس ایمرجنسی ونگ کے ترجمان کے مطابق شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کی مجموعی تعداد 1لاکھ 8 ہزار سے زائد تھی، جس میں سے 92 ہزار سے زائد خاندان واپس جا چکے ہیں، جبکہ پی ڈی ایم اے کے ریکارڈ پر 15229 متاثرہ خاندان اب بھی موجود ہیں، جن میں سے 2040 بنوں کے بکاخیل کیمپ میں مقیم ہیں جبکہ دیگر خاندان کرایے کے مکانات میں رہائش پذیر ہیں، جنہیں پی ڈی ایم اے ماہوار فی خاندان 12 ہزار نقد اور اس کے علاوہ ماہوار راشن فراہم کرتی ہے۔ راشن میں 80 کلو آٹا، پانچ کلو گھی اور پانچ کلو دال شامل ہے،
شمالی وزیرستان کے متاثرین افغانستان میں بھی موجود ہیں
مقامی انتظامیہ کی جانب سے پاک افغان بارڈر پر موجود تحصیلدار غلام خان غنی الرحمان جو افغانستان میں موجود متاثرین کو دیکھتے ہیں نے بتایا کہ تین مراحل میں افغانستان سے ابھی تک 4 ہزار سے زائد متاثرہ خاندان واپس منتقل ہو چکے ہیں جبکہ مقامی انتظامیہ کے اعداد و شمار کے مطابق 6033 خاندان اب بھی افغانستان کے دو صوبوں خوست اور پکتیکا میں موجود ہیں، غنی الرحمان کا کہنا ہے کہ رہ جانے والوں میں زیادہ تر خاندان شمالی وزیرستان کے دور افتادہ علاقے شوال سے ہیں، جہاں دہشتگردوں کے خلاف اب بھی آپریشن جاری ہے، تحصیلدار غلام خان کے مطابق ان کے علاقے جب بھی کلیئر ہو جائیں، اور جب سیکیورٹی فورسز انہیں اجازت دیں گی تب ہی افغانستان سے متاثرہ خاندانوں کی واپسی کا عمل شروع کیا جائیگا،
شمالی وزیرستان سے صوبائی اسمبلی کے رکن میر کلام وزیر کہتے ہیں کہ افغانستان میں 6033 خاندان نہیں بلکہ اب بھی وہاں 15 ہزار سے زائد خاندان پناہ حاصل کئے ہوئے ہیں، جن کی واپسی کیلئے وہ بار بار اسمبلی کی سطح پر، سیکیورٹی اداروں اور مقامی انتظامیہ کے ساتھ مسلسل میٹنگز اور منتیں کر رہے ہیں کہ افغانستان منتقل ہونے والے متاثرین کو واپس لایا جائے مگر کوئی میری فریاد سننے کو تیار نہیں،
اس خبر سے متعلق : ایک ویڈیو وی لاگ :: یہاں کلک کیجئے وی لاگ کو ملاحظہ کیجئے۔۔
ٹارگٹ کلنگ شمالی وزیرستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
شمالی وزیرستان میں بدامنی کے خاتمے اور امن و امان کی بحالی کیلئے دہشتگردوں کے خلاف ملکی تاریخ کے سب سے بڑے اور مہنگے ترین آپریشن ضرب عضب کو شروع ہوئے 6 سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، سیکیورٹی اداروں کے بقول آپریشن ضرب عضب کے ثمرات حاصل ہو گئے ہیں اور دہشتگردوں کے خلاف یہ آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچ گیا ہے۔ مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں،
شمالی وزیرستان کی انتظامیہ کے اعداد و شمار کے مطابق فروری 2018ء میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کیا گیا اور گھروں میں بیڈ رومز کے اندر لوگوں کو قتل کیا گیا جس کے نتیجے میں سال 2018ء میں 40 افراد مارے گئے، سال 2019ء میں 51 افراد مارے گئے، جبکہ رواں سال 2020ء کے نومبر تک 58 افراد مارے گئے ہیں، جبکہ ماہ دسمبر کچھ اور بھی بھاری نظر آ رہا ہے،
آزاد ذرائع انتظامیہ کے بر عکس اس تعداد کو کچھ زیادہ ہی بتا رہے ہیں، تاہم انتظامیہ کے اعداد و شمار یہی ہیں،
بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اور اندھیروں سے تنگ یوتھ آف وزیرستان نے اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کیا
شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے خلاف ضرب عضب کے نام سے جو آپریشن شروع کیا گیا تھا، اس کے ثمرات مقامی قبائل حاصل نہ کر سکے، یہ کہنا ہے یوتھ آف وزیرستان کے سیکرٹری جنرل وقار احمد داوڑ کا،،،،،
وقار احمد کہتے ہیں کہ 15 جون 2014ء کو سیکیورٹی فورسز نے آپریشن ضرب عضب کے آغاز کا اعلان کیا تب شمالی وزیرستان کے مقامی قبائلیوں نے سیکیورٹی فورسز کی ایک کال پر اپنے بھرے پرے گھر بار کھیت کھلیان ، دکانیں ، مارکیٹیں اور دیگر کاروبار چھوڑ کر شمالی وزیرستان کو خالی کر دیا، اس کے باوجود پھر سے بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ان اداروں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں، جس کے خلاف یوتھ آف وزیرستان نے شروع سے میر علی اور میرانشاہ میں کافی مظاہرے دھرنے اور ریلیاں نکالیں، تاہم ان کی آواز پر کسی نے توجہ نہیں دی، اب وہ تخت حکمران اسلام آباد کے ڈی چوک کے مقام پر شمالی وزیرستان میں بدامنی ، ٹارگٹ کلنگ اور اندھیروں کے خلاف دھرنا دے رہے ہیں جس میں ان کا مطالبہ ہے کہ جس نام پر آپریشن کیا گیا اس کے نتائج بھی ہونے چاہئیں،
یوتھ آف وزیرستان کے چیئرمین نور اسلام داوڑ کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان سے بدامنی کے خاتمے کیلئے آپریشن ضرب عضب کیا گیا تھا، لیکن اب اس آپریشن کے برعکس انہیں ثمرات مل رہے ہیں۔
یوتھ آف وزیرستان کے صدر اسد اللہ شاہ کہتے ہیں کہ یہاں وزیرستان میں درجنوں دھرنے اور مظاہرے ہوئے، تاہم اسلام آباد کے ایونوں میں بیٹھے حکمرانوں تک ان کی آواز نہ پہنچ سکی، اب اسلام آباد کے ایوانوں کے قریب جا کر وہاں سے چیخ چیخ کر شمالی وزیرستان میں امن کا مطالبہ کرینگے، شاید یہاں سے ان کی آواز حکمرانوں کے کانوں تک پہنچ سکے !!!
یہ منہ اور مسور کی دال سمجھ کر ۔۔۔… انتظامیہ اسلام آباد
یوتھ آف وزیرستان کےجوانوں کو تخت حکمران اسلام آباد کی سرزمین پر شمالی وزیرستان میں امن کےمطالبےکیلئے انتظامیہ نےاجازت نہیں دی، اس حوالے سے یوتھ آف وزیرستان کےسیکرٹری جنرل وقاراحمدداوڑ نےدی خیبرٹائمز کوبتایا، کہ اس کے تنظیم میں کوئی بھی ممبرغیرآئینی، غیرجمہوری قدم اُٹھانے کاسوچ بھی نہیں سکتے، نہ ہی ان کے تنظیم میں کوئی ایسا فرد موجود ہے، جوکوئی ایک بھی کسی فرد یا ادارے کیلئے غیرپارلیمانی لفظ استعمال کریں، لیکن پھر بھی انکو نہ صرف ڈی چوک پر دھرنا دینے سے روک رہےہیں، بلکہ اسلام آباد پریس کلب انتظامیہ کوبھی ان کے ہونے والے پر یس کانفرنس سے منع کردیا۔
اس کا کہنا ہے، کہ ایک سازش کے تحت اب شمالی وزیرستان میں خانہ جنگی کو فروغ دی جارہی ہے، پھر ایسے میں وہ وزیرستان میں گولیوں سے مرنے کے بجائے امن کیلئے آواز بلند کرتے ہوئے پاکستانی جیلوں میں مرنا پسند کرینگے، وقار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک سازش کے تحت اب وزیرستان میں قبائلی تنازعات، اراضی کے تنازعات کو لیکر ہر بچہ مرنے کو تیارہوگیاہے، جس کی روک تھام کیلئے یوتھ آف وزیرستان نے سرتھوڑ کوشش کیں، مگر قبائلی تنازعات ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، اُن کا کہنا ہے کہ بیک وقت قبائلی تنازعات کا سر اُٹھانا، اسلحہ سے پاک وزیرستان میں ایک بار پھر بھاری اسلحہ کا ایک دوسروں کے خلاف استعمال کرنا کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کے تدارک کیلئے یوتھ آف وزیرستان آخری حد تک جانے کو تیار ہے، چاہے اسمیں ان کی جان کیوں نہ چلی جائیں؟یوتھ آف وزیرستان کے ممبران کہتے ہیں، کہ اس خطرناک صورت حال کا راستہ روکنا اور بھاری اسلحہ سے لیس ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن قبائلیوں کو مورچوں سے اُتارنے اور وزیرستان کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے وہ ہر جمہوری اور آئینی راستہ اختیار کرینگے۔
اس خبر سے متعلق ایک ویڈیو بھی ۔۔۔ یہاں کلک کرکے ملاحظہ کرسکتے ہیں
اس ویڈیو کو بھی ملاحظہ کرنے کیلئے : یہاں کلک کیجئے
2 تبصرے “وزیرستان میں پھر اندھیروں کی آمد۔۔ تحریر ناصر داوڑ”