ڈی آئی خان واقعےسےعامر تہکالے تک، تحریر : مصطفی

ہماری تاریخ میں ڈی آئی خان سے تعلق رکھنے والی معصوم شریفا بی بی کا واقعہ بھی موجود ہے جس کو 2017 میں برہنہ کرکے بازار میں گھمایا گیا لیکن آہ و پکار کے باوجود پولیس یا دیگر لوگ طاقتور اور ظالم کے سامنے نہ آئیں، اور یو معصوم لڑکی کی عزت کو پامال ہونے دیا، 2 سال تک مرکزی ملزم مفرور تھا اور بعد میں پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے، اور اس کے بعد ماشاءاللہ۔۔۔۔۔۔

ہماری تاریخ میں ساہیوال سے تعلق رکھنے والے ننھی بچیوں کے دو معصوم چہرے بھی موجود ہیں، جن کے والد پر سی ٹی ڈی اہلکار نے ان کے سامنے گولیاں برسائیں، وزیر اعظم عمران خان نے واقعے کو سیاسی رنگ دے کر ہمیشہ کی طرح ستر سالہ گند قرار دیا انصاف دلانے کا وعدہ کیا، جے آئی ٹی رپورٹ آئی اور چھ افراد کو ذمہ دار ٹھرایا گیا، اس کے بعد ماشاءاللہ۔۔۔۔۔

ہماری تاریخ میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب محسود بھی موجود ہے، جن کو عدالت میں پیش کئے بغیر راؤ انوار نے پولیس مقابلے میں قتل کر دیا، اس کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا، بعد میں تفتیشی ٹیم نے پولیس کے اس مقابلے کو جعلی قرار دیا اور تفتیش میں پتہ چلا کہ راؤ انوار نے مزید 444 افراد کو ماروائے عدالت قتل کئے ہیں ، اس کے بعد ماشاءاللہ۔۔۔۔۔

یہ بھی پڑھئے : صلاح الدین سے عامر تہکالی تک ۔۔۔۔۔تحریر : زاہد عثمان

عامر تہکالے کا واقعہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ رہے گا، خواہش تو یہی ہے کہ علامتی سزا کے بجائے ملوث پولیس اہلکار کو کڑی سزا دی جائے، لیکن اس بوسیدہ نظام میں صرف عوام کا غم و غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے ایکشن لیا جاتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ پھر وہی حرکت، پھر وہی معمول اور پھر وہی ظلم۔۔۔۔

ہم عوام نے بھی ہمیشہ ان واقعوں کو صرف سوشل میڈیا کی زینت بنایا ہے، مجرموں کیلئے سزائیں مانگی ہیں، جو یقیناً اچھی بات ہے لیکن کسی نے یہ سوچا ہے کہ ہم کب تک مذمت کرتے رہیں گے اور کب تک سزائیں مانگتے رہیں گے- کیا ایسے نہیں ہو سکتا کہ ہمیں ان چیزوں کو سوشل میڈیا پر ڈسکس کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے؟ اگر نہیں تو کیا ہم اگلے واقعے کا انتطار کریں؟

ہمیں چاہئے کہ اس واقعے کو بنیاد بنا کر ہم بھی امریکیوں کی طرح پولیس اہکار کے رویوں پر سوالات اٹھائیں، ان پر یہ بات واضح کریں کہ آپ عوام کیلئے ہیں، آپ عوام کے خادم ہیں، آپ عوام کے محافظ ہیں، عوام آپ کیلئے نہیں

جب تک پولیس اور عوام کے درمیان دوستانہ ماحول پیدا نہیں ہوگا، جب تک پولیس تھانوں کو اپنی جاگیر اور بیٹھک سمجھے گی، جب تک عوام چور اور ڈاکو سے زیادہ پولیس سے ڈریں گے، تب تک ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایسے واقعات نہیں ہوں گے یا کم ہوں گے؟ یہ سوالیہ نشان ہے۔

یہ بھی پڑھئےنہ جانے یہ پتھر کب موم ہوجائیگا۔۔ تحریر: کاشف عزیز

ڈی آئی خان واقعےسےعامر تہکالے تک، تحریر : مصطفی” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں