اس وقت پوری عالم انسانیت کورونا وباء کے چنگل میں پھنس چکی ہے۔حکومتوں نے اپنے عوام کو اس سے محفوظ رکھنے کے لئے احتیاطی تدابیر بھی اپنائی ہوئی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے بھی گائیڈ لائن اور احتیاطی تدابیر بتائی ہیں ۔اس کے باوجود بھی یہ جان لیوا مرض پھیلتا جا رہا ہے۔اس کی ایک وجہ لوگوں کا اس کو سنجیدہ نہیں لیناہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی اس وبا کے خلاف احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔ پشاور میں شہری اس کورونا سے بچاو کے لئے حکومتی ہدایات کو پرکاہ برابر اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ان کے نزدیک یہ سرے سے کوئی بیماری نہیں ۔اپنی اس منطق کو ثابت کرنے کے لئے وہ ایسے دلائل پیش کرتا ہے کہ بندہ سن کر کانوں کو ہاتھ لگا لے۔کوئی اسے عالمی سازش کہتا ہے تو کسی کے نزدیک فنڈ جمع کرنے کی نئی چال ہے۔بعض اسے اللہ کی طرف سے عذاب گردانتے ہیں ۔ کسی کو یہ لیبارٹری میں تیار کردہ وائرس دکھائی دیتا ہے۔یعنی جتنے منہ اتنی باتیں ۔حالانکہ اس وائرس سے پوری دنیا بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں جتنی اموات ہوئی ہیں وہ اس وبا کو خطرناک ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں ۔اٹلی کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے اس وبائی مرض کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس وقت اٹلی دنیا میں کورونا سے متاثرہ کیسز کے لحاظ تیسرے نمبر پر ہے۔ نہ صرف انسانوں کی صحت متاثر ہو رہی ہے بلکہ کرونا کی وجہ سے ان ممالک میں بے روزگاری بڑھ گئی ہے۔ غریب طبقہ تو بالکل پس گیا ہے۔ اس وباءسے نمٹنے کےلئے پوری دنیا میں لاک ڈاون کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی لاک ڈاون ہے۔جس سے دہاڑی دار اور مزدور طبقہ متاثر ہورہا ہے۔وہ چیح رہا ہے کہ کرونا مارے یا نہ مارے مگر غربت اور فاقے ضرور مار دیں گے۔ پشاور میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے امجد خان نے بتایا کہ میں لاک ڈاؤن سے پہلے پشاور صدر میں دیہاڑی کاکام کرتا تھا روزانہ ایک ہزار سے بارہ سو روپے کماتا تھاجس سےمیں اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا تھا جب سے لاک ڈاؤن کیا گیا ہے گھر پر بیٹھا ہوں کوئی مزدوری نہیں ہے سارا شہر بندکیا ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے تو بارہ ہزار روپے مالی امداد مل گئی ہے جو بہت کم ہے۔ بارہ ہزار روپے میں پورا مہینہ گزارنا بہت مشکل ہے۔ لاک ڈاون سے پہلے میں 25سے 30ہزار روپے ہر ماہ کماتا تھا۔ اب تو ماہ رمضان بھی شروع ہو چکا ہے جس میں اور بھی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے حکومت تو شہریوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کررہی ہے۔ احساس کفالت پروگرام کے تحت اب تک دس لاکھ سے زائدغریب خاندانوں میں بارہ ہزار سے روپے تقسیم کئے جاچکے ہیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ مخیر حضرات کو چاہے کہ وہ بھی میدان میں نکل آئیں اور اپنے غریب بھائیوں کی مدد کریں۔ رمضان میں بندہ جتنا زیادہ ثواب کماسکتا ہے کما لے ۔مشکل کی اس گھڑی میں منافع خوری سے گریز کریں تاکہ ہماری وجہ سے کسی کے گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ پڑے۔ اللہ تعالی ہم پر اپنا کرم ضرور کرے گا اور پھر سے زندگی معمول پر آجائیگی۔
اہم خبریں
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments