صحافت: مطیع اللہ یا طاقت کی اطاعت؟ تحریر: سید فخر کاکاخیل

اسلام آباد میں دن دیہاڑے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو اٹھانے کا واقعہ ہوا اور پل بھر میں سوشل میڈیا پر آوازیں اٹھیں، پارلیمنٹ میں بھی معاملہ اٹھا اور صحافتی حلقوں نے بھی احتجاجاً بیانات جاری کئیے اسطرح وہ خیریت سے گھر واپس پہنچے۔ سیف سٹی اسلام آباد میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ وہ تو شکر ہے دیواروں پر سی سی ٹی وی کیمرے تھے۔زمانوں سے سنتے آئے ہیں دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں لیکن مطیع اللہ جان کے اغواء میں ہم نے دیکھا کہ دیواروں کی آنکھیں بھی ہوتی ہیں جنہوں نے بعد ازاں انکھوں دیکھا حال بھی بتایا۔

لیکن عوام کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ ان کی نظر میں تو صحافی لفافے لیتے ہیں، حکومت سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں اور بولتے لکھتے تنقید کرتے ہیں۔ یہ قوم پڑھنے لکھنے سے شعف نہیں رکھتی۔خداوند نے حکم دیا پڑھ ہم “پڑ” سمجھے ہم پڑھنے کے پیچھے پڑ گئے مجال ہے کہ کوئی پڑھ کے دکھائےہم بس پڑتے ہیں۔دیکھیں اگر ترقی روڈ، عمارتیں، ادارے قائم کرنے کا نام ہوتا جو کہ بدقسمتی سے پاکستان میں سمجھا جاتا ہے تو یہ کام انگریز کے دور میں جتنا ہوا اتنا آج تک نہ ہوا ہے اور لگتا ہے ہوگا بھی نہیں۔ ریل کا نظام، عدالتوں کا نظام، مشنری سکول، مشنری ہسپتال، سڑکیں، دفاتر، فوج، بیوروکریسی یہاں تک کے قوانین بھی اسی زمانے کے ابھی تک چل رہے ہیں لیکن پھر بھی لوگ آزادی چاہتے تھے۔ اس آزادی کے لئیے لڑے، مرے اور جیلیں کاٹیں۔ وہ آزادی تھی اپنی رائے کی آزادی، کہ ایک ایسا ملک اور معاشرہ ہو جہاں ہم آزادی سے اپنے لئیے بول سکیں، اپنے لئیے حکمران خود منتخب کر سکیں۔ بد قسمتی سے ہمیں اب یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو کچھ مطیع اللہ جان کے ساتھ ہوا یا صحافت اور پارلیمنٹ کے ساتھ ہو رہا ہے ہم نہ تو ترقی کر پائے اور نہ وہ آزادی رکھ پائے جس کے لئیے انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی۔ پہلے ہی صحافت برے حال میں تھی اور عالمی سطح پر ہم غلامی کی حدیں پار کر رہے تھے اب یہ سفر کچھ اور تیز ہو گیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن طاقتور حلقوں اور حکمرانوں کی خبر لینے کا نام صحافت ہوتا ہے ہمارے کچھ صحافی انہی حلقوں اور حکمرانوں سے خبر لے کر پلے بڑھے۔ خبر کا فیصلہ کرنے والوں نے خبر کا سودا کیا۔مظلوم عوام کی “اوہ” کو طاقتور کی “واہ” سمجھا گیا بلکہ دکھایا گیا۔

حالت یہ ہوگئی کہ صحافت میں پیسہ ذریعہ ہوتاہےخبرلانےکا لیکن یہاں خبر بنی ذریعہ پیسہ لانے کا، بس سیٹھ میڈیا کو یہ سمجھنے کی دیر تھی کہ اقتدار کو سوال نہیں سوالی چاہیئے تو ہر طرح کے سوالی بھرتی کئیے۔ ایڈیٹر کا ادارہ ختم کر دیا گیا۔پہلے ایڈیٹر گارڈ ہوتے تھے خبر کے جب وہ نہیں رہے تو صحافیوں نے گارڈ رکھنے شروع کئیے۔ عوام بھی جان گئے کہ ہتک عزت کا دعویٰ کرو تو دعویٰ کی ہی ہتک ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نوبل، آسکر، ورلڈ کپ-ورلڈکپ تو کرتے رہے لیکن انفرادی طور پر آپ کو منظرنامے پر نظر آنے والے صحافت کے ان بڑے بڑے پہلوانوں میں کوئی بھی آج تک پلٹزر Pulitzer جیت کر لاتے ہوئے دکھائی نہیں دیتا۔ جو ہیں ان کا نام بھی ان کو معلوم نہیں ہوگا۔ کیونکہ زخمی اور کمزور کھلاڑی مقابلے نہیں جیتتے۔ پھر بھی طاقت کے پجاری معاشرے میں سچائی جاننے کی کوشش ہوئی۔ اس کا نتیجہ بھی یہ نکلا کہ سچ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے جب طاقتور جھوٹ ملا تو وہی جھوٹ وقت کی سب سے بڑی سچائی بنا۔ پہلے تو کھلم کھلا سنسر شپ ہوتی تھی جب خبر ہوتی اب خبر تو مشکل سے نکلتی ہے لیکن اگر کوئی حق کی بات بھی کرے تو شورکےسنسرشپ میں ان کی آوازیں مشکل سے خود پاکستانی عوام تک پہنچتی ہیں۔ ویسے بھی ہم آہستہ آہستہ یہ تسلیم کررہے ہیں کہ صحافت آزاد ہو تو خبر کی ڈیڈ لائین ہوتی ہے ورنہ صحافی کی ڈیڈ لائین ہوتی ہے۔ اس خوف کے باوجود مطیع اللہ جان جیسے کچھ ساتھی دلدل کو دیکھ کر اسے سونے کا انڈہ دینے والے پرندے کا گھونسلا نہیں مانتے۔ ہو سکتا ہے کہ میڈیا دباؤ اور خوف سے اس دلدل کو سونے کا انڈہ دینے والے پرندے کا گھونسلا قرار دیدے۔ لیکن یقین مانئیے جب اس دلدل میں آپ گریں گے تو آپ ہی پچھتائیں گے۔ ان چند صحافیوں کے پاس کھونے کو کچھ نہیں زنجیروں کے سوا لیکن آپ کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ ویسے یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا آپ کے ساتھ پہلے بھی تو ہوا ہے جب آپ دلدل میں پھنس گئے تھے، ذرا یاد کریں۔ نہیں!!!!


سید فخر کاکاخیل: سینیئر صحافی کالم نگار اور دی خیبرٹائمز کے نامہ نگار ہے، نہ صرف پرنٹ میڈیا یا بطور لکھاری ان کا ایک وسیع تجربہ ہے،بلکہ الیکٹرانک میڈیا کا بھی ایک وسیع تجربے کا حامل ہے۔ جو مختلف نیوز چینلز کے بیوروچیف اور نمائندہ خصوصی رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں