ملک قادر خان شہید کی یادیں ۔۔ تحریر … احسان داوڑ

Author IHSAN DAWAR

 

ملک قادر خان شہید کی یادیں ۔۔ احسان داوڑ

(ملک قادر خان شہید کی چھٹی برسی کے حوالے سے خصوصی تحریر)
ملک قادر خان جیسے نابغئہ روزگار لوگ صدیوں میں ایک ادھ ہی پیدا ہوتے ہیں لیکن ہم ایسی قوم ہے جس میں ہیروں کے پہچان کی خوبی سرے سے موجود ہی نہیں ۔ ملک قادر خان ( چیف اف اتمانزئی) آج سے چھ سال پہلے میرانشاہ سے اتے ہوئے راستے میں چشمہ پُل کے قریب دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے لیکن ساتھ میں اپنے اپ کا بدلہ لینابھی نہ بھولا ۔ اس کی بہادری پہ مجھے تو پہلے سے بھی کوئی شک نہیں تھاکیونکہ میں نے کئی مواقع پر انہیں دیکھا تھا اور اس کی جرات اور بہادری پر مجھے رشک اتا تھا ۔ یہ غالباً 2010 کا زمانہ تھا جب وزیرستان میں ہر طرف اگ اور خون کا کھیل پورے عروج پر تھا ۔ پشاور کے گورنر ہاؤس میں گورنر اویس غنی کے ساتھ ایک جرگہ ہورہا تھا ۔ ملک قادر خان نے ڈائس پر اکر بڑے دبنگ انداز میں گورنر کو مخاطب کرتے ہو ئے کہا،
” گورنر صیب، اگر میرے وزیرستان میں امن نہ ہو تو خدا کی قسم اپکا اسلام اباد بھی محفوظ نہیں رہے گا”
جس انداز میں ملک قادرخان نے اسی دن تقریر کی وہاں بیٹھے ہو ئے سارے بیورو کریٹس اور دیگر لوگوں کو پسینہ اگیا لیکن ملک صاحب ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ ڈٹے ہو ئے تھے اور کسی کی پرواہ کئے بغیر وہ وزیرستان کا کیس بھرپور انداز میں لڑرہے تھے ۔
ملک صاحب کے ساتھ میرا بڑا قریبی رشتہ تھا جس کو دل کا رشتہ کہا جاتا ہے ۔ اس کے بغیر جرگوں میں مزہ ہی نہیں اتا تھا ۔ بطور صحافی بیس سال تک میں اپنے علاقے کے ہر بڑے جرگے کی کوریج کیلئے جاتا تو ملک صاحب کے پہلو میں چپکے سے بیٹھ جاتا تھا اور جرگہ ختم ہو تے ہی وہ کچھ اف دی ریکارڈ باتیں بھی میرے ساتھ شئیر کرتا تھا۔ وہ اتنے دبنگ لیڈر تھے کہ جب اپنی ترنگ میں اتے تو کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ ایک دفعہ اسلام اباد میں صدر زرداری کے ساتھ سارے قبائل کے ایک سو نمائندوں کا جرگہ تھا اس میں صدر نے جو کہنا تھا کہہ دیا اور جب اس نے بات ختم کی تو ملک قادر خان اور ملک معمور خان مرحوم نے کھڑے ہو کر زرداری کو اپنی ہی پشتو میں جو کہنا تھا کہہ ڈالا ۔ایوان صدر کا عملہ انگشت بدنداں رہ گیا کہ بڑی بڑی پگڑیاں باندھے یہ کیسے لوگ ہیں جن کو پرواہ تک نہیں کہ ہم کس سے مخاطب ہیں ۔
ملک قادر خان انتہائی زیرک انسان تھے اور کسی بھی جگہ کوئی بھی غلطی کرتا وہ کسی لگی لپٹی کے

 یہ بھی پڑھیں :  شمالی وزیرستان میں جاری کشت وخون۔۔ احسان داوڑ

بغیر غلطی کرنے والے کو ٹوکتے۔
ایک دفعہ میرعلی کے پانچ اقوام اور عیدک قبیلے کے مابین بجلی کا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا جس میں عیدک قبیلے نے مین لائن پر زنجیریں ڈال کر 22 دن تک پورے وزیرستان کی بجلی منقطع کردی تھی ۔اس میں ایک پانچ رکنی گرینڈ جرگہ راضی نامہ کی کوششوں میں مصروف تھا جس کی سربراہی ملک قادر خان کر رہے تھے ۔ چونکہ مسئلہ بڑا گھمبیر تھا اس لئے ہم بھی سویرے سویرے کوریج کیلئے جرگے کے ساتھ اتے جاتے تھے ۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میرعلی کے پانچ قبیلوں یعنی حسوخیل ، ہر مز، مچی خیل ، میرعلی وزیر اور موسکی کی طرف سے میرعلی وزیر کے مشر ملک گل دراز خان مرحوم نے جرگے سے کہا کہ عیدک قبیلے سے کہو کہ اپنی تاریں اور کھمبے ہمارے علاقے سے نکال دیں ۔ ملک گل دراز خان کا یہ کہنا تھا کہ ملک قادر خان کا رنگ اڑگیا۔ جرگے کے دیگر اراکین ملک ولی خان کابل خیل ، ملک معمور خان ، ملک خانزیب چیف اف داوڑ اور ملک نصراللہ خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ائیں ہم علحیدگی میں اس پر بات کرتے ہیں ۔ اسی وقت ملک قادر خان مرحوم نے مجھے بھی اشارہ کیا کہ اپ بھی اجائیں ۔ یہ جرگہ میرعلی تحصیل کے نیچے اسلامی مدرسے میں ہورہا تھا جہاں ایک زیر تعمیر کمرے کے اندر ہم سب بیٹھ گئے تو ملک قادر خان نے ملک ولی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس بندے نے تو یہ بڑی غلط بات کہہ دی ۔ میں حیران اس پر ہوا کہ سارے ملک صاحبان کو بیک وقت یہ بات کیسے غلط لگی اور پھر واپسی پر ملک قادر خان نے بڑے واضح انداز میں ملک گل دراز خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
” اپکی یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ اپکو جو بجلی مل رہی ہے وہ بھی اسمان سے نہیں بلکہ کسی نہ کسی کی زمین پر تربیلا سے یہیں تک لوگوں کی زمینوں میں کھمبے اور تاریں بچھا کر ائی ہے اس لئے اج سے جہاں بھی کوئی بجلی کا کوئی کھمبا یا تار لگا ہے وہ اس کا حق ہے جس کو ہمارے ہاں عزاتی کہا جاتا ہے “
ملک گل دراز خان نے اسی وقت کھڑے ہو کر اپنی بات واپس لی جس پر پورے جرگے نے خوشی کا اظہار کیا۔
ملک قادر خان کی یہ خوبی شاید کسی اور قبائلی لیڈر میں موجود نہ ہو کہ جس کی کوئی بھی غلطی ہوتی وہ اس کے منہ پر کہہ دیتا کہ تم غلط ہو اور اس میں وہ کسی کی رو رعایت کے قائل نہیں تھے چاہے وہ کوئی بڑاسرکاری افسر ہوتا یا کوئی قبائلی رہنماء ۔
ملک صاحب مولانا فضل الرحمن کے بھی بہت قریب تھے اور مولانا صاحب اکثر انہیں اپنی پہلو میں جگہ دیتے تھے ۔ ملک صاحب کی حس مزاح اور ظرافت سے بھرپور مثالیں اور باتیں مولانا فضل الرحمان کو بہت پسند تھیں ۔ ملک صاحب کسی بھی قسم کے تناؤ کی کیفیت میں بھی کوئی نہ کوئی شگوفہ ایسا چھوڑتے کہ پورے ماحول کو خوشگوار بنا دیتے تھے ۔
سال 2013 میں میں انگریزی روزنامہ فرانٹئیر پوسٹ میں بطور چیف رپورٹر کام کرتا تھا تو ایک دن پشاور میں مولانا فضل الرحمن نے طالبان اور حکومت کے مابین مذاکرات کے حوالے اہم پریس کانفرنس کی جس میں ملک قادر خان بھی موجود تھے ۔ پریس کانفرنس کے بعد اس نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر ایک الگ کونے میں لے گیا اور بتایا کہ حکومت نے اپریشن کا فیصلہ کیا ہے لیکن مولانا نہیں مان رہا ۔
میں نے وقت اور تاریخ کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ابھی یہ طے نہیں ہوا ہے ۔ لیکن پھر جب یکم مئی 2014 کو اس کو شہید کیا گیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اب اپریشن ہو کر رہے گا کیونکہ ملک قادر خان کسی صورت اپنے علاقے کے ایسے اپریشن کے حق میں نہیں تھے جو اج ہم دیکھ رہے ہیں ۔ اور اس کی

 یہ بھی پڑھئے:  جو وقت کی گردو غبار میں دفن ہو چکا ہے۔ تحریر : احسان داوڑ

وفات کے بعد ہمارے اندر مزاحمت مکمل طور پر دم توڑ گئی۔
ملک قادر خان ایک دبنگ ، جی دار اور زندہ دل پیدائشی رہنماء تھے جس کے کردارکے بارے میں گوکہ کچھ لوگوں کے تحفظات ضرور ہیں لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو ان کو قریب سے نہیں جانتے تھے ۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے قوم اور اپنے علاقے کی وکالات انتہائی بھرپور طریقے سے کی اور اسی کی پاداش میں خود کو قربان کردیا لیکن ملک قادر خان کو شہید کرنے والے شاید یہ بھول گئے کہ وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں جگہ بنا کر گئے ہیں ۔ ملک صاحب کی زندگی سے بھرپور شخصیت بھولنے والی نہیں ۔ وزیرستان کی تاریخ میں شاید ہی کوئی دوسرا ملک قادر خان ائے ۔ حق مغفرت کریں عجب ازاد مرد تھا ۔ اس کی وفات سے واقعی پورا وزیرستان اُجڑ گیا ۔

یہ بھی پڑھئے :  بول کہ لب آزاد ہیں تیرے…. تحریر رفعت انجم

 

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں 

7 تبصرے “ملک قادر خان شہید کی یادیں ۔۔ تحریر … احسان داوڑ

اپنا تبصرہ بھیجیں