گھر سے نکلا قرنطینہ میں اٹکا۔۔۔۔۔۔۔

تحریر : رفعت انجم

وہ معمول کے مطابق گھر سے نکلا۔ آج اپنے دو بیٹوں کو بھی ساتھ لے لیا کہ فاروق کے گھر جتنا سینٹری کا کام رہتا ہے آج ہی مکمل کرکے اجرت لے گا اور گھر کو جاکر سوجائے گا کیونکہ صبح ماں کو ہسپتال بھی لے جانا ہے ۔گردوں میں تکلیف کی وجہ سے اب ان کا بیٹھنا بھی محال ہوگیا ہے۔ منیر مسیح اسی سوچ میں کام مکمل کرکے نکلنے والا ہی تھا کہ باہر گلی میں کچھ شور سنائی دیا۔ کچھ لوگ کسی کے مرنے اور راستے بند ہونے کی باتیں کررہے تھے۔ خیر منیر نے افسوس کرتے ہوئے بیٹوں کو آگے بڑھنے کا کہا تو گلی کے نکڑ پر کھڑے پولیس اہلکاروں نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ گلی میں ایک شخص کورونا وائرس سے انتقال کر گیا ہے لہذا چودہ دن کے لیے پوری گلی کو قرنطینہ کر دیا ہے اور وہاں کے رہائشیوں کو گھروں سے باہر نکلنےکی اجازت نہیں۔ یہ کہانی پاکستان میں کورونا سے ہلاک ہونے والے پہلے شخص کے پڑوس میں مزدوری کے لیےآئے شخص کی ہے جو گھر سے نکلا تو قرنطنیہ میں حادثاتی طور پر اٹک گیا۔
‎منیر مسیح اور اس کے دو بیٹے18مارچ کو اکیڈمی ٹاون میں واقعہ ایک گھر میں پائپ لگانے گئے مگر جب شام کو گھر واپس جانے کے لئے نکلے تو انتظامیہ نے انہیں راستے میں روک لیا کیونکہ علاقے میں حالات صبح کے مقابلے میں یکسر بدل گئے تھے۔ اکیڈمی ٹاون میں کورونا وائرس کا مریض سامنے آنے پر انتظامیہ نے انہیں بھی چودہ روز کے لیے اسی زیر تعمیر گھر میں بند کردیا جہاں وہ کام کرنے آئے تھے ۔حادثاتی طور پر چودہ دن کا قرنطنیہ گزارنے والے یہ محنت کش کہتے ہیں کہ انہوں نے انتظامیہ کو کئی بار اپنی بے بسی کی فریاد سنائی ٹیسٹ بھی ہوئے بیمار والدہ کا تذکرہ بھی کیا لیکن انہوں نے جانے نہیں دیا۔جہاں شروع کے دن جیسےتیسے گزر گئے مگر چودہ دن کیسےگزریں گے یہ غم کھائے جا رہا تھا۔ کیونکہ گھر پر ایک بیمار ماں ، بیوی اور بیٹیاں انتطار میں تھیں لیکن گھر سے تھوڑے سے فاصلے پر ہی مسافروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ قرنطینہ میں گزرے چودہ دن کی آپ بیتی سناتے ہوئے منیر مسیح کہتے ہیں کہ مالک مکان بھی عیسائی تھا اُس نے بسترے وغیرہ دیے ۔اُ س کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے وقت گزار رہے تھے مگر گھر اور خاندان سے دور گزر نہیں رہے تھے۔بالآخر 14 دن گزر گئے اور منیر مسیح اور اس کے بیٹوں کو زبردستی کے قرنطینہ سے نجات مل گئی اور وہ گھر پہنچ گئے۔ محنت کشوں کے مطابق قرنطینہ کے دوران انتظامیہ نے علاقہ مکینوں کے ٹسٹ بھی لیے تاہم نتائج منفی آنے کے بعد علاقہ کو کھول دیا گیا اوروہ گھر واپس لوٹ آئے ۔ سفید ڈھیری کے علاقے میں لاک ڈاؤن اس وقت کیا گیا جب اس علاقے سے کرونا وائرس سے متاثرہ ایک شخص کی نشاندہی ہوئی۔ یہ شخص ہنگو کا رہائشی تھا اور اس علاقے میں اپنے ایک رشتہ دار کے ہاں آیا تھا۔جس کی کورونا کے باعث موت ہوئی،پشاور میں کورونا سے جاں بحق ہونے والا پہلا کیس تھا جبکہ یہ علاقہ خیبر پختونخوا کا پہلا قرنطینہ قرار دینے والا علاقہ تھا۔ منیر اپنے گھر واپس تو آگیا لیکن اسے لگتا ہے جیسے زندگی کا پہیہ رک سا گیا ہو۔ گھر میں اب نہ بیمار والدہ کے علاج کو پیسے ہیں نہ اپنے اہل خانہ کو دو وقت کا روزی فراہم کرنے کی طاقت۔ بس ایک آس ہے اسے کہ شاید اس کی چودہ دن کی بلاوجہ قیدکی قیمت حاکم وقت ادا کرے اور وہ اپنا چولہا جلا سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں