پانی قدرت کا انمول تحفہ اور زندگی کی علا مت ہے۔ لیکن اپنے غیر ذ مہ دارانہ رویئےکی وجہ سے ہم نے اسے اپنے اور اپنے بچوں کی زندگیوں کیلئے وبال جان بنا دیا ہے۔
گلبہار پشاور کے رہائشی پینسٹھ سالہ طاوس خان سر پر پگڑی باندھے ،پرانے کپڑے پہنے اور بھاری چادر اپنے کندھوں پر رکھے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں بچوں کے ایمر جنسی وارڈ میں ڈرپ لگے اپنے دو سالہ بچے کیساتھ کھڑے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے بچے کو ہیضے کا مرض لاحق ہے جوچیز کھا لیتا ہے فورا اُلٹی کر لیتا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ اپنے بچے کا کافی علاج کیا ٹھیک نہیں ہو رہا ہے۔
طاؤس خان کے قریب والی بیڈ پر ڈرپ چڑھے اپنے ایک سالہ بچے کو گود میں لئے بظاہر غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی پچاس سالہ عاصمہ بی بی نے اپنے دوپٹے سے چہرہ چھپاتے ہوئے بتایا کہ اسکے بچے کو دو مہینوں سے قے ہو رہی ہے۔بہت کمزور ہو گیا ہے لیکن کو ئی دوائی ابھی تک اثر نہیں کر پا رہی۔
طاؤس خان اور عاصمہ کے علاوہ بچوں کی ایمر جنسی میں موجود تقریباً تمام لوگ اس بات پر متفق تھے کہ ان کے گھر میں استعمال ہونے والا پانی صاف نہیں ہے اس میں چھوٹے چھوٹے ذرات پائے جاتے ہیں۔اور اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔
یہ بھی پڑھئے : اِنفارمل اِ کا نومی اور ملکی معیشت تحریر: اکرام اللہ مروت
مریض بچوں کامعائنہ کرنے میں مصروف ماہرِ امراضِ اطفال سینئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر نو شاد احمد نے بتایا کہ یہاں پر ستر سے اسی فیصد ایسے بیمار بچوں کو لایا جاتا ہے جن کی بیماری کا براہ راست تعلق پانی یا خوراک سے ہوتا ہے یعنی قے،دست یا پھر سینے کے امراض۔
سعید آباد نمبر ۱ کے رہائشی منظور احمد کا گلہ ہے کہ وہ ٹیوب ویل سے آنے والے نلکے کا پانی استعمال کرتا ہے جس میں مسلسل زنگ اور ریت کے ٹکڑے شامل ہوتے ہیں جس سے اُنکے بچے اکثر بیمار پڑتے ہیں۔
شاہی باغ، پشاور شہر کے سابقہ ٹاؤن ممبر ملک محمد اسلم خان نے منظور احمد کی شکایت کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنی یونین کونسل میب تقریباً تمام گلیوں کی مرمت کی ہے اور وہاں تمام پرانے پائپس کو ہم نے تبدیل کیا ہے۔ لیکن شاید ہم سے چند چھوٹی چھوٹی گلیوں کے پائپس رہ گئے ہو ں جہاں پر یہ مسئلہ موجود ہو سکتا ہے۔
پانی کا معائنہ کرنے والے ادارے پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسز ((PCRWR ) کے ریجنل ڈائریکٹر ثمر گل کیمطابق پشاور میں زیرِ زمین سورس یعنی زمین کے اندر موجود پانی بالکل صاف ہے لیکن یہ پانی جب ٹیوب ویل سے گھروں تک پہنچتاہے تو آلودہ ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر اکثر لوگ جب غیر قانونی طور پر متعلقہ اداروں کے نوٹس میں لائے بغیر اپنے گھروں کیلئے اضافی کنکشن لیتے ہیں۔ تو بغیر تجربے کی وجہ سے وہاں جوڑ ڈھیلارہ جاتاہے۔ جسکی وجہ سے نکاسی آب کا گندہ پانی پینے کے پانی کے پائپس میں آجاتا ہے۔ جسے پورے محلے کا پانی آلودہ ہو جاتاہے۔
صارفین تک صاف ستھرا پانی پہنچانے اور شہر کی صفائی کے ذمے دار ادارے واٹر اینڈ سینیٹیشن سروسز پشاور کے ترجمان حسن علی نے بتایا کہ پشاور شہر میں اب تک تقریباً 300 کلو میٹر تک پانی کے پرانے پائپس تبدیل کئے جا چکے ہیں جبکہ مزید900 کلو میٹر تک کے پائپس تبدیل ہونا اب بھی باقی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ موجودہ حکومتِ نے خیبر پختونخوا سٹی امپرومنٹ ایکٹ کا پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت پشاور شہرمیں پینے کے پانی کے تمام بوسیدہ پائپس کو تبدیل کیا جائیگا۔
پینے کا صاف پانی، تعلیم و صحت اور دیگر سہولیاتِ زندگی شہریوں کو فراہم کرناجہاں حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے وہاں اِن سہولیات کے استعمال میں احتیاط اور انکا تحفظ کرنا بحثیتِ قوم ہماری اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے : “سائبر عیدی” تحریر “کاشف عزیز”