شر میں خیر، کرونا کے کچھ مثبت پہلو۔ احسان داوڑ

: یہ غالباً سن 2000 کی بات ہے جب پورے ملک میں اٹے کا بحران تھا۔ ہمارے پڑوس میں ایک افغانی بھائی کے گھر اٹا کئی دن سے ختم ہوا تھا اور چاول کھا کھا کے ان کے بچے تنگ اگئے تھے۔ اخر میرے پاس آگیا اور کہا کہ کہیں سے اٹے کا انتطام کریں ۔ میں انہیں لیکر میرعلی تحصیل گیا۔ اس زمانے میں چارسدہ سے تعلق رکھنے والے اسفندیار خان ہمارے تحصیلدار تھے جس کے ساتھ میرے اچھے مراسم تھے ۔ میں نے چپکے سے انہیں اٹے کیلئے کہا تو انہوں نے اشارہ کیا اور ہم اس کے پیچھے پیچھے چل دئے۔ ہمارے تحصیل کی پُرانی عمارت میں اٹا رکھا گیا تھا لیکن جب ہمیں اٹا دیا جارہا تھا تو اس دوران خاصہ دار اور ایک دوسرے شخص کے مابین جھگڑا ہوگیا ۔ جھگڑا ایسا تھا کہ خاصہ دار کی قمیص قربان ہوگئی اور دوسرے شخص کی پگڑی اس کے گلے میں جھول رہی تھی ۔ ہمارے ساتھ ہمارا افغانی بھائی شدید دہشت زدہ تھا لیکن اس دوران تحصیلدار صاحب نے ہمیں اشارہ کیا کہ اٹے کی بوری لے جاؤ۔ ہم اٹا لیکر جب تحصیل بلڈنگ سے نیچے اُترے تو ہمارے افغانی بھائی نے کہا کہ یار دیکھو تو اللہ کے کام ، ہمارے لئے شر میں سے خیرنکال دیا ۔
اج میں ویسے ہی سوچ رہا تھا کہ کرونا کی وجہ سے کچھ باتیں مثبت بھی ہوئی ہیں جن میں ایک تو الودگی کا خاتمہ ہے ۔ گاڑیاں رُک گئی ہیں ، کارخانے بند ہیں ، لوگوں نے کچرا بنانا کم کردیا ہے اور پورے معاشرے میں گندگی کے پھیلاؤ کو بریک لگ گیا ہے ۔
اس کے ساتھ کمال کی بات یہ ہے کہ ہپستالوں میں مریض نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ایک لکھاری کا کہنا ہے کہ میانی صاحب کے قبرستان میں رہائش پذیر ایک گورکن کے مطابق اس کا دھندہ بالکل چوپٹ ہوگیا ہے یعنی شرح اموات کم ہوچکا ہے ۔ اس پر بہت سارے لوگوں کی مختلف رائے ہیں کچھ کا خیال ہے کہ لوگوں نے بازاری کھانا چھوڑ دیا ہے اور گھروں میں صاف ستھری خواراکیں شروع کی ہیں ۔ کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ پرائیوٹ کلینیکس اور ہسپتال بندہیں ، لوگوں کے اپریشنز نہیں ہورہے ہیں ۔ اور اس طرح لوگوں میں قوت مدافعت بڑھ گئی ہے ۔اس لئے شرح اموات بہت کم ہوگئی ہے ۔
کرونا کی وجہ سے وہ گھرانے جو مصروفیت کے باعث مہینوں ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو ترس جاتے تھے ، اب ایک ساتھ وقت گزار رہے ہیں جس سے معاشرتی قربت بڑھ گئی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق لوگوں میں بچت کا رجحان اسی فیصد تک بڑھ گیا ہے ۔ ایک ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ گاڑیوں میں ستر فیصد پٹرول کی بچت ہوئی ہے جس سے ایک تو ماحول کو فائدہ پہنچا ہے اور دوسری طرف لوگوں کے پیسے بھی بچ گئے ہیں ۔
اور حال ہی میں ایک ادارے نے یہ پیشن گوئی بلکہ خوشخبری ہی سمجھ لیجئے دی ہے کہ پاکستان میں لاک ڈاؤن کی برکات اور فیوض کی وجہ سے مبلغ پچاس لاکھ بچے پیدا ہونے کے امکانات ہیں جو کہ ہمارے جیسے کم ابادی والے ملک کیلئے کرونا کی شکل میں ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہیں ۔ اور اخر میں یہ کہ ہمارے ہاں تمام سرکاری نوکروں کو قابل ذکر ارام کے مواقع بھی ملے ہیں ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں سرکاری ملازمین بشمول اساتذہ کرام کے سارا سال ایک لمحے کو بھی ارام کا موقع حاصل نہیں کرتے اور قوم و ملک کی ترقی کیلئے دن رات کام کام اور کام کے فارمولے پر عمل پیرا ہوتے ہیں ان کیلئے دو ماہ کی یہ چھٹیاں اللہ کی طرف سے ایک قسم کا ان کی محنت شاقہ کا انعام ہی ہے ۔ امید ہے کہ دفاتر کھلنے کے بعد ہمارے سرکاری ملازمین اپنے اپنے اداروں میں گذشتہ دو ماہ کے دوران کرپشن کے ضائع شدہ تمام مواقع کو دگنی محنت کے ساتھ ایک بار پھر بروئے کار لا کر قوم و ملک کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرینگے

اپنا تبصرہ بھیجیں