بچوں سے زیادتی ایک المیہ اور روز کا معمول تحریر ۔ ۔ ۔ ۔ علی حسن ٹکر

پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملے پر نہ صرف غور و فکر کیا جارہا ہے بلکہ حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز بھی پالیسیوں کو اپناتے ہوئے اس مسئلے سے نمٹنے، اداروں کے قیام، اسٹیک ہولڈرز کی صلاحیت بڑھانے اور بڑے پیمانے پر شعور پیدا کرنے وغیرہ کے لئے اپنی جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن تا حال اس میں کوئ ایسی قابل ستائش کامیابی نہیں ھو کہ ھم کہہ سکے کہ اب ھمارے بچے محفوظ ہیں۔

حال ہی میں ایک پانچ سالہ بچی پشاور میں اپنے گھر سے لاپتہ ھے اور پچھلے ایک ھفتہ سے اسکا کوئ پتہ نہیں کہ وہ زندہ بھی ھے کہ نہیں اور اسکی گمشدگی کی خبریں مسلسل گردش کررہی ھے۔

جبکہ پچھلے ہفتہ نوشھرہ میں ایک بار پھر ایک چھ سالہ بچی کی لاش بوری میں ان کے گھر سے 100 میٹر کے فاصلہ پر برآمد ھوئ ھے۔ ٹیسٹ لیبارٹری بھجوائے گئے ہیں جبکہ ملزم گرفتار ھو گیا ھے۔ جس نے زیادتی کے کوشش اور قتل کا اعتراف جرم کردیا ہے۔

بچوں سے زیادتی دراصل ایک المیہ اور روز کا معمول بن گیا ہے، جبکہ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ھے کہ بچوں کیساتھ زیادتی کرکے مار دیئے جاتے ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ جب کوئ واقعہ پیش آجائے ھم سب ملک کر چند دنوں تک اس واقعہ پر بحث کرتے ہیں جبکہ مستقل بنیادوں پر مسلے کی حل پر کوئ توجہ دینے کی کوشش کرنے کے بجائے ماضی کے واقعات بارے سوچ رہے ھوتے ہیں۔

حالانکہ ہر بچے کو کسی بھی قسم کے ذہنی، جسمانی یا جنسی استحصال کے بغیر پرورش پانے کا بنیادی حق حاصل ہے۔

بچوں سے زیادتی کے واقعات ملک کے ہر کونے سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ہورہے ہیں جبکہ روک تھام اور جواب دہی کا نظام اب بھی اسی طرح دستیاب نہیں ہے جس طرح ہونا مطلوب ہے۔ پاکستان میں خونی رشتوں میں جنسی استحصال کے واقعات اکثر دیکھنے میں آتے ہیں لیکن قانونی کمزوری، قانون تک رسائ، پیچیدگیوں، معاشرتی دباو، صلح اور معافی کے روایات کے باعث ملزم پکڑ کر بھی سزا سے سے بچ نکلتا ھے اور مسئلے کا حل کہیں بھی نظر نہیں آتا۔

غیر سرکاری تنظیم ساحل کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 کے پہلے نصف حصے میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔ ساحل کے چھ ماہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چاروں صوبوں، اسلام آباد ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سے جنوری سے جون 2020 کے درمیان بچوں سے زیادتی کے 1 ہزار 489 کیسز رپورٹ ہوئے۔
ان کے اعداد و شمار سے یہ بات سامنے آئی کہ سال کے پہلے چھ ماہ میں ہر روز آٹھ سے زائد بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی۔

اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مقدمات کی کل تعداد میں سے، متاثرین میں سے 53 فیصد لڑکیاں اور 47 فیصد لڑکے تھے۔

اس کے علاوہ 490 متاثرین کی عمریں 11 سے 15سال، 331 کی عمریں چھ سے 10 سال اور 98 کی عمریں ایک سے 5 سال کے درمیان تھیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب میں کیسز کے 57 فیصد (835 کیسز)، سندھ میں 32 فیصد (477 کیسز) اور خیبر پختونخوا میں 6 فیصد (91 کیسز) رپورٹ ہوئے۔

59 فیصد کیسز میں جان پہچان والے یعنی قریبی لوگ رپورٹ ھوئے۔

دیہی علاقوں نے مقدمات کے 62 فیصد اور شہری علاقوں میں 38 فیصد رپورٹ کیا۔

2019 کے پہلے چھ ماہ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 1،304 کیسز رپورٹ ہوئے، “تو 2019 کے پہلے چھ ماہ کے مقابلے میں کیسز کی تعداد میں 14 فیصد اضافہ ہوا کیونکہ جنوری تا جون 2020 میں 1489 کیسز رپورٹ ھوئے”۔

بچوں سے زیادتی کے مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟

پاکستان میں یہ واقعات معاشرے میں تشویش پیدا کر رہے ہیں، بچے قریبی رشتہ دار کے ساتھ بھی محفوظ نہیں ہیں، بچوں کے تحفظ سے متعلق عمومی طور پر تعلیم، شعور اور حساسیت نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں جنسی زیادتی کے واقعات مسلسل رپورٹ ھورھے ہیں۔

ھمارے روایتی معاشرے میں بلخصوص بچوں کو اس بارے میں تو سرے سے ہی شعور و آگاھی نہیں دیا جاتا کہ کس کے ساتھ بات کریں، اٹھیں، بیٹھیں اور نقل و حرکت کریں۔ اور یہی وجہ ھے جس کی وجہ سے جنسی درندے بچوں کے ساتھ آسانی سے مشغول ہو کر انہیں اپنے جال میں پھنسادیتے ہیں۔

جنسی جرائم کے خاتمے کی سزا بھی موجودہ قوانین کے اندر رھتے ھوئے بہت ضروری ہے کیونکہ جب تک جنسی جرائم میں ملوث مجرموں کو سزا نہیں دی جائے گی، معاشرہ اس طرح کی بدبختوں سے آزاد نہیں ہوگا۔

بچوں کی حفاظت کی بنیادی ذمہ داری والدین کی ہے۔ تاہم یہ بات بھی لمحہ فکریہ ہے کہ اکثر والدین ان ضروری عوامل سے بے خبر رہتے ہیں یا ان میں خاطر خواہ شعور و آگاھی نہیں ہوتا جو بچوں کے ساتھ زیادتی کا سبب بنتا ہے لہٰذا والدین کی تعلیم اور شعور دینا ہی ترجیح ہونی چاہئے۔ گویا انہیں علم ہی نہیں کہ بچے کو کن مسائل اور خطرات کا سامنا ہے، اس کے رویے وغیرہ میں ہونے والی تبدیلیوں کی اصل وجہ کیا ہے جو ایسے معاملات میں اضافے کا باعث بنے گی۔

بچے اگرچہ خود اصل اسٹیک ہولڈرز ہیں اور وہ ہی متاثر ہوتے ہیں۔ ھر سطح پر ان میں شعور پیدا کرنا انتہائ ضروری ہے اور جو اچھا اور برا ہے اس کے بارے میں انہیں تعلیم دی جائے اور وہ پالیسی سازی اور دیگر سرگرمیوں میں مصروف رہیں۔ تاکہ اپنا تحفظ خود کرسکے۔

تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز/اداروں کی کوآرڈینیشن اور بچوں سے متعلق انکی استعداد کار بڑھانے کی بھی اشد ضرورت ھے کہ باہمی روابط یقینی بناکر بچوں کو نہ صرف یہ کہ محفوظ کریں بلکہ جب انکے ساتھ زیادتی ھو تو متاثرہ بچے اور ان کے خاندان کی داد رسی بھی کریں اور ملزم کو کیفر کردار ٹک بھی پہنچائے، لیکن یہ سب کچھ تب ہی ممکن ھوسکتا ھے، جب تمام متعلقہ اسٹیک ھولڈرز کی ترجیح بچوں کا تحفظ ھو اور ان کو یہ احساس ھو کہ بچے اس ملک کا نصف آبادی ھے جن کا حال بڑا بے حال ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں