طالبان-امریکہ کو انخلاء میں مدد دیتے دیتے کابل پہنچ گئے! خصوصی تحریر، عماد سرحدی

جوبائیڈن نے جس وقت امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کا پلان دیا تھا تو اس میں بھی کہا گیا تھا کہ ستمبر میں مکمل انخلا کا فیصلہ درست ہے اور ٹرمپ دور کا یہ منصوبہ 30 اگست تک مکمل انخلاء سے پورا کرلیا جائیگا،انہوں نے جس وقت یہ بات کی کہ مزید امریکہ کو 20 سالہ افغان جنگ میں نہیں جھونک سکتے تو انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ طالبان اس تیزی سے پھر تخت کابل پر قبضہ کرلیں گے۔چلیں ہمارا کیا کام!ہم تو اس سارے مذاکرات میں کہیں نہیں تھے،جس حمایت کی امریکہ کو ضرورت تھی وہ اس سے پاکستان کی مدد کی صورت میں مل گئی،باقی جو گروہ یا دھڑے تھے ان کو امریکہ اور نیٹو کے فوجی 20 سال تک تربیت دیتے رہے اور اس کے بعد بھی معاہدہ ہوا تو طالبان کے ساتھ۔
اشرف غنی صاحب! آپ 20 سال تک کس کی نمائندگی کرتے رہے،بیساکھیوں پر قائم حکومت 20 سال اور بھی چل جاتی اگر آپ امریکہ کو انخلاء سے روکنے میں کامیاب ہوجاتے ۔تو اب جب کابل میں طالبان وارد ہو چکے ہیں تو افغان قیادت کا جانا تو بنتا ہے،طالبان کی یہ فتح انکی عسکری کامیابی ہے تو آپ کی بیڈ گورنس اور اعتماد کا وہ فقدان ہے جس سے بے سروساماں طالبان پوری طرح لیس ہیں۔انہوں نے 20 سال پہلے بھی ہار نہیں مانی،آج کی فتح تو انکی خالصتا اس معاہدے کانتیجہ ہے جس میں امریکہ نے افغان مسئلے پر ان سارے گروہوں کے مقابلے میں طالبان سے معاہدہ کرنا ضروری سمجھا۔کل تک اشرف غنی جس معاہدے کی توقع طالبان قیادت سے کرتے رہے ہیں اس میں انکا معصومیت سے افغان دارالحکومت چھوڑ دینا ظاہر کرتا ہے کہ ذہنی جنگ وہ کل ہی ہار چکے تھے جب کابل میں اتحادیوں کے اجلاس کے بعد افغان حکومت نے ٹوٹے دل سے مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کیا،ہاں طالبان نے جنگ جیت کر جس ہوشمندی کا مظاہرہ کیا ہے اس طرح کا اتحاد افغان حزب اقتدار میں نظر نہیں آیا، طالبان نے عام افغانوں سمیت ہر اس مخالف کیلئے عام معافی کا اعلان کیا جو کل تک طالبان کے بدترین مخالف رہے ہیں۔دوسری طرف اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ اپنے اقتدار میں جس سب سے بڑی ذمہ داری سے عہدہ برآں نہ ہوسکے اس میں سرفہرست اس قومی فوج کی تشکیل میں ناکامی ہے جو آج انکا اقتدار بچا سکتی، افغانستان میں طالبان کا ان دو دہائیوں میں جوش وولولہ کسی موقع پر کم تو ہوا ہوگا لیکن انکی کمٹمنٹ اسی طرح قائم رہی،یہی وہ فرق ہے جو سقوط کابل کی وجہ بنا۔
کاش کہ اشرف غنی اپنے دور میں ان بیساکھیوں کو اکھاڑ پھینک کر صرف امریکہ کا اعتماد بھی جیت لیتے تو یہ معاہدہ قطر میں نہیں کابل میں دن کی روشنی میں ہوتا۔بگرام ائیر بیس راتوں رات خالی ہوا تو پتہ چلا کہ اشرف غنی کی حکومت کو امریکہ کا کتنا اعتماد حاصل ہے۔ خدارا اپنا قبلہ درست کریں اور اب آگے کو سوچیں، اپنی افغان حمیت کو اسلام اور مسلم برادر ملکوں سے جوڑ کر رکھیں، سائے کے پیچھے بھاگنے والوں کو کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔اشرف غنی کا ڈوبتا اقتدار اس کا ثبوت ہے۔
تازہ خبر یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور امریکہ سمیت یورپ کے ملکوں نے طالبان سے محاذ آرائی کی بجائے تحفظ ملنے کی شرط پر کابل میں قیام کرنے پر رضامندی دیدی ہے اب یہ ان پر ہے کہ وہ انکی سلامتی کو یقینی بنائیں تاکہ امریکہ اور یورپ! طالبان کا زمانے کے الٹ پھیر میں بدلا چلن بھی دیکھ لیں، پاکستان کو اس سارے منظر نامے میں جس چیز کی تلاش ہے وہ افغان قومیت کا بین الاقتدار اتحاد ہے،سقوط کابل میں افغان قیادت کی اپنے عوام کے تحفظ میں ناکامی اب ماضی کا حصہ بن چکی ہے لیکن آگے کا دور ضرور تابناک ہوسکتا ہے اگر افغان آج اور ابھی طالبان کو اپنا حصہ اور چلے جانے والوں کو اس حمیت پر راضی کرلیں جسکا یہ دور تقاضا کررہاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں