پشاور کی اکلوتی رکشہ ڈرائیور فضیلت بیگم کی چشم کشا کہانی ، خصوصی تحریر: افتاب مہمند

اگراپ کو پشاور میں کبھی رکشے کی سواری کرنی پڑی اور اتفاق سے اپ نے جو رکشہ کرلیا اس کی ڈرائیور مردوں کے لباس میں کوئی خاتون نکلی تو سمجھیں کہ اپ پشاور کی واحد خاتون رکشہ ڈرائیور فضیلت بیگم کے رکشے میں سفر کر رہے ہیں ۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں نہ صرف مردوں کی حاکمیت مسلمہ ہے بلکہ روایات کے نام پر خواتین کو کچھ خاص کام بھی نہیں کرنے دیا جاتا اور ان میں رکشہ یا ٹیکسی چلانا بھی شامل ہیں ، ایسے معاشرے میں فضیلت نامی یہ 25 سالہ خاتون پورے معاشرے کی دشمنی مول لیکر کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنا آٹو رکشہ چلا کر اس خودساختہ غیرت مند معاشرے کے تمام مردوں کی غیرت کو گویا روزانہ غیر محسوس طریقے سے زناٹے دار تھپڑ رسید کرتی ہوئی نظر آتی ہے تاہم ایسا نہیں کہ فضیلت کو درد نہیں ہوتا بلکہ وہ کہتی ہیں کہ جب ان کے بارے میں لوگوں کے تلخ و تند اور بعض اوقات اخلاق سے گھیرے ہوئے تبصرے سن لیتی ہوں ، تو مجھے کافی درد محسوس ہوتا ہے ۔ لیکن ان باتوں کاسامنا کرتے ہوئے فضیلت کے ہاں گزشتہ چارسال سے رکشہ چلانے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار بھی تونہیں۔
فضیلت جن کے والد بھی زندہ ہیں اور تین بھائی بھی ہیں، تاہم گزشتہ 7 سال سے انکی جانب سےکوئی سپورٹ نہ ملنے پر گھر سے نکل کر محنت مزدوری شروع کی، توان کی بوڑھی والدہ نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا، کہ وہ بیٹوں کی بجائے فضیلت کیساتھ رہیگی، جیساکہ وہ ان کی بہتر طریقے سے خدمت کررہی ہے۔ فضیلت نےسات سال کے دوران رکشہ چلانے کے علاوہ بیوٹی پارلر میں کام کیاہے۔ اسی طرح گاڑیوں کی ایک ورکشاپ میں بھی بطور شاگرد کام سیکھا ۔ 4 سال قبل چونکہ محنت و مزدوری کرتے ہوئے فضیلت کو ضرورت کے مطابق معاوضہ نہیں مل رہا تھا، اسلئےانہوں نےفیصلہ کیا کہ اب وہ رکشہ چلائےگی۔ فضیلت جب سےمحنت مزدوری کرنے لگی ہے، تو گھر والوں کا ان کیساتھ زیادہ رابطہ نہیں رہتا۔ لہذا انہوں نےہدایت نامی اپنی ایک کزن سےمشاورت کےبعد ڈرایئونگ سیکھ کر پشاور میں رکشہ چلانا شروع کردیا۔

پہلے کسی اور بندے کا 300 روپے روزانہ کی حساب سےمعاوضے پر ایک رکشہ لیا۔ جہاں رکشہ مالک کو روزانہ 300 روپے دینے پڑتے تھے، اسی طرح اپنےلئےبھی کمائی کرتی تھی۔ ان کے ہاں والدہ اور ایک چھوٹی بہن بھی رہتی ہے، اورکئی عرصہ سے وہ کرایہ کے ایک مکان میں رہتی ہے، تو اتنے اخراجات پورے کرنے کیلئے انہیں کافی محنت کرنی پڑی ہے۔ معاشرےکی ایک وہ مخصوص ذہنی کیفیت رکھنےوالی سوچ کا بھی ساتھ ساتھ مقابلہ کرنا تھا, جس کےباعث کوئی بھی خاتون گھر سے باہر نہیں نکل سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ فضیلت کو بھی اسی طرح کے گندے ذہنیت رکھنے والے افراد کا روزانہ کی بنیاد پر سامنا کرنا پڑ رہاہے, تاہم چونکہ ان کو والدہ، بہن، کرایہ کا مکان، رکشہ مالک کو اپنا دھندہ دینا جیسے مشکلات وچیلنجز کا بھی سامنا کرنا تھا ، لہذا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے ایک سال قبل وہ دن بھی آیاکہ فضیلت نےاپنا ہی ایک رکشہ لیکر وہ خود ایک گاڑی کی مالک بن گئی۔ چار سال سے رکشہ چلانے والی ، پشاور کی واحد خاتون کے مطابق جب اپنارکشہ نہیں تھا، تو رشتہ داروں نے تعلق ہی ختم کیا تھا کیونکہ وہ بہت بے بس تھی، لیکن جب سےاپنا رکشہ لیا ہے، تو سارے سمجھتے ہیں کہ ان کےہاں تو پیسہ آیا۔ سب نےتعلق واپس بحال کر دیا ہے۔ صبح 10بجےسےرات 9 بجےتک وہ رکشہ چلاتی رہتی ہے۔ ہر طرح کےلوگ معاشرےمیں موجود ہیں۔ انہیں اوباش قسم کےلوگوں کیوجہ سے سخت پریشانی کا سامنا کرناپڑتاہےجیساکہ گھرسےوہ نکلتےوقت مردوں کےکپڑےپہنتی ہے۔لوگ مختلف قسم کے تبصرے کرکے انہیں زچ کرتی ہیں ۔وہ کہتی ہے کہ جب بھی کسی سواری پر انہیں شک آتاہےتوراستے ہی میں فوری طورپر اتارتی ہے۔کبھی ایسابھی ہوتا ہےکہ رکشہ راستےمیں خراب ہونےکی صورت میں انہیں خود مستری تک لیجانا پڑتا ہے۔
لیکن وہ اپنی مزدوری پرتوجہ دیتی ہے۔ لوگوں کےرویے یا باتوں پرنہیں البتہ انہیں گندے ذہن رکھنے والے لوگوں کی رویہ پرافسوس ضرور ہوتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں کہ ان کوایک خاتون رکشہ ڈرایئور کے ناطے سراہتی ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ خواتین سواریاں رکشہ میں لایا اور جایاکریں۔ زیادہ تر وہ قریب اورشہری علاقوں کے سواریاں لیجانا پسند کرتی ہے۔

فضیلت کے مطابق کمائی کبھی کم اورکبھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی والدہ چونکہ ان کےپاس رہتی ہے، لہذا انکی بھرپور علاج و خدمت کرتی ہے۔ رات کو گھر جاکر صفائی، ستھرائی کاکام، کھانا پیناتیارکرنابہت ساراکام بھی کرناپڑتاہے۔ دن کومزدوری اوررات کوگھرکاکام کاج لہذااکثروقت مصروفیات ہی میں گزرتاہے۔
فضیلت کےمطابق وہ چونکہ پڑھی لکھی نہیں ہےلیکن اللہ پاک انکواچھی ذہانت دیکرمعاشرہ اسطرح سے ڈیل کرتی ہےکہ باہرمزدوری کیلئےجاکروہ ایک
مرداورگھرمیں خاتون ہوتی ہے۔جیسا کہ بغیراسکاہونہیں سکتاکیونکہ اسی معاشرےمیں رہ کرایک خاتون کی عزت و قیمت کابالکل خیال نہیں رکھاجاتا۔یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ ہرانسان کاعزت اپنےہی ہاتھوں میں ہے۔وہ دوسروں کااحترام کرناجانتی ہے۔اوروں سےبھی فضیلت ایک خاتون کی احترام وعزت کرنادیکھناچاہتی ہے۔انکی والدہ کا ان کے پاس بھرپور سپورٹ اور دُعائیں ہیں، اس لئے وہ تمام تر مشکلات کے باوجود بھی جی رہی ہے۔

کبھی کبھار لوگ رکشہ سے شیشے و دیگر اوزار چوری بھی کرتے ہیں، لیکن اگر وہ کچھ کرنا چاہے بھی تو خاتون کرکیا سکتی ہے۔ صرف بے بسی کا عالم ہوتا ہے، اور ایسے میں ان کو بہت دُکھ و درد پہنچتاہے، لیکن کچھ بھی کر نہیں سکتی۔ ان کی خواہش ہوتی ہے، کہ بھائی اور دیگر اہل خانہ انکو پوری طرح کا سپورٹ کریں تاکہ ان کو معاشرے کے دیگر خواتین کیطرح ایک اچھا مقام حاصل ہو۔ فضیلت پڑھے لکھے بغیر ابھی اپنی اچھی ذہانت سے حالات و مشکلات کا بھرپور مقابلہ کررہی ہے۔ فضیلت کے مطابق پشاور جیسے شہر میں ایک خاتون کیلئے باہر نکلنا اور پھر رکشہ چلانا ان کی حوصلے کو سلام کرناچاپیئے۔یہ ایک بڑااعزازسمجھناچاہیئےجیساکہ یہ کسی بھی خاتون کی بس کی بات نہیں۔ یہی صرف فضیلت ہےکہ وہ نکل آکر لڑرہی ہے۔ فضیلت کواس بات پر خوشی بھی ہوتی ہے کہ وہ پشاورکی واحد خاتون رکشہ ڈرائیور ہے۔ ساتھ ساتھ وہ
فخر کیساتھ ملک خصوصاً پشاور کے دیگر خواتین کیلئے ایک مثال سمجھتی ہے۔ بھیک مانگنے یا تنگدستی کی زندگی گزارنے کی بجائے جہاں کسی بھی خاتون کو کمائی کرنی پڑتی ہے۔ بے شک فضیلت کیطرح وہ بھی میدان میں آکر محنت و مزدوری کرکےاپنے بچوں وگھر والوں کا سہارابنے۔ کوئی بھی خاتون اگر بے بس ہو تو وہ کیاکرسکتی ہے۔ بہترہے کہ باہر جاکر محنت مزدوری کرے۔ خواتین کو اس پر شرمانا نہیں چاہیئے، بلکہ فخرمحسوس کرنا چاہیئے۔
معاشرے کے بعض لوگوں کی ذہنی جو عکاسی ہے، خواتین کو انکا بھر پور مقابلہ کرنا ہوگا۔
با ہمت خاتون رکشہ ڈرایئور فضیلت کی خواہش ہے، کہ حکومتی سطح پر انکا اگر تھوڑا سا بھی سپورٹ حاصل ہوجائے، تو اس مشکل پیشہ اپنانے کی بجائے اپنا کوئی بھی کاروبار شروع کرکے ایک باعزت زندگی گزارسکےگی۔ اسی طرح معاشرے کے دیگر خواتین کیلئے وہ ایک اعلی مثال بن جائیگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں