فخر واقعی قابل فخر۔۔۔ خصوصی تحریر: ابراہیم خان

وہ تھا تو شاکرد استادوں کے استاد شکیل بھائی ( سید شکیل احمد) کا لیکن 2006 میں جب میں نے روزنامہ پاکستان سے وابستگی اختیار کی تو وہاں ایک دبلا پتلا مودب لڑکا فخر الدین سید میرا ہم کار (colleague ) بنا جوپاکستان جوائن کرنے سے پہلے روزنامہ جہاد کی بھٹی سے صحافتی کندن بننے کی دوڑ میں شامل ہوچکاتھا. اسے صحافتی رموز سیکھنے کا بہت شوق تھا اور اپنی اس خواہش کی تکمیل میں وہ کسی سے بھی کچھ پوچھنے میں جھجکتا نہیں تھا. اس حوالے سے فخر مجھ سے اپنی خبروں کی تصحیح کروانے لگا حالانکہ اس میں تصحیح کی کچھ زیادہ ضرورت نہیں ہوتی تھی پھر اس نے یہ عادت سی بنالی تو ایک روز میں نے فخر سے کہا کہ تمہاری خبر سازی پختہ ہوچکی ہے اس کو براہ راست ڈیسک بھیج دیا کرو. بس یہی چند روزہ استادی شاگردی رہی مگر فخرنے اسی پرمحھے اپنے استادوں کی فہرست میں شامل کرلیا .بعدازاں یہ استادی شاگردی ایک اچھے انٹرو کے حصول تک محدود ہوگئی اورساتھ ہی ایک دوسرے کو ادب و احترام کے ساتھ ایک دوسرے کو قریب سےجا نا. آخری ملاقات تک اس نے مجھے ہمیشہ “مشرا” کہہ کر بلایا.

یہ بھی پڑھئے:  صحافی کے ساتھ اس کا پورا خاندان بھی پیوند خاک ۔۔ تحریر: اے وسیم خٹک :

میں نے اپنے اس دوست نماشاکرد کو بہت کم اس کے نام سے پکارا .فخر دور طالبعلمی میں پیپلز پارٹی کا جیالا تھا اور جیالوں جیسی پھڑک اس کے مزاج کا حصہ تھی. دیکھنے میں تو ایسا لگتا تھا کہ وہ صرف ہنستا ہی تھا لیکن جب جذبات کے اظہار کا وقت آتا تو وہ فخر الدین کے بجائے فخر جلالی بن جاتا تھا. میں نے فخر کی سولہ سالہ رفاقت میں اس کا یہ انداز دیکھا تو کچھ اس وجہ سے اور کچھ خبر کی کھوج میں وہ جس انداز سے ڈوب کر کام کرتا تھا تو اس کی مناسبت سے میں فخر الدین سید کو پیارسے ” گوریلا” کا نام دے دیا. جب مجھے فخر کی علالت کا پتہ چلا تو اس وقت کورونا کی تصدیق نہیں ہوئی تھی تو میں نے اسے کہا کہ گوریلا تم بیماری سے جان چھڑائو حالات نازک ہیں ویسے تم ٹھیک ہوجائو گے کیونکہ تم گوریلا ہو. میں فون پر اس کے چہرے کے تاثرات تو نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن اس نے اپنی روایت کے مطابق ہنستے ہوئے کہا ” ہاں شاید ایساہی ہوگا ” یہ میرے گوریلے کا مجھے آخری جواب تھا.
پھر گوریلا کب ہسپتال داخل ہوا مجھے نہیں پتہ. یہ اطلاع مجھے عمیر یاسر نے دی لیکن اس کے بعد سے میری اپنے گوریلے سے ملاقات تو نہیں ہوسکی البتہ اس کیلئے اللہ سے دعائیں مانگیں لیکن خالق نے گوریلے کیلئے شہادت کا مرتبہ رکھا ہوا تھا اسی مرتبے پر وہ فائز ہوگیا.
آح اسے سالوں بعد ملنے پر میں نے اپنے روایتی انداز میں ” پخیر گوریلا ” نہیں کہا لیکن اس نے بھی تو شہادت کا تمغہ لئے آخری وقت تک ہشاش بشاش شکل کے باوجو مجھے دیکھ کر کچھ نہ کہا……اس کی خاموشچی نے مجھے آبدیدہ کردیا.
میرا گوریلا شہادت کے ساتھ اپنے والد کے قدموں اور ماں کی بغل والی قبر میں اپنے تمام تر مسائل کو لے کر ابدی نیند سوگیا.
آج سونے سے پہلے اس نے نیند کی گولی بھی نہیں کھائی مگر پھر بھی وہ سوگیا شائد اس کی وجہ ماں کا قرب ہو جو اس کو شہادت کے پہلے انعام کے طور پر ملا. فخر الدین سید کو ماں بہت عزیز تھی اس نے ماں کی بہت خدمت کی .
اللہ تعالی میرے نہایت دلعزیز گوریلے فخر الدین سید کو بلند مقام عطاء کرے.
میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تفصیل میں جائے بغیر پریس کلب کے صدر اور خازن یہ گذارش کرتا ہوں کہ فخر الدین سید کی جو بھی مالی معاونت خواہ کسی سطح پر ہو وہ فخر الدین سید کی بیوہ تک براہ راست پہنچائی جائے.فی امان اللہ فخر تم قابل فخر تھے ہو اور رہو گے.

یہ بھی پڑھئے :  پشاور کے صحافیوں پر حملے تحریر: فدا عدیل

3 تبصرے “فخر واقعی قابل فخر۔۔۔ خصوصی تحریر: ابراہیم خان

اپنا تبصرہ بھیجیں