خیبرپختونخوامیں پچھلے سال کے مقابلے میں رواں سال بچوں پر جنسی حملوں میں 16فیصداضافہ ریکارڈر کیا گیا ہے اورخدشہ ظاہر کیاجارہاہے کہ سال کے آخرتک یہ اعدادوشمار مزید بڑھ سکتے ہیں دوسری جانب محکمہ قانون نے بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب ملزمان کو پھانسی دیتے وقت ان کی ویڈیوبنانے کی بھی تجویز دی ہے تاہم یہ قانونی مسودہ پہلے کابینہ سے منظورہوگااس کے بعد اسے صوبائی اسمبلی سے پاس کیاجائے گا
خیبرپختونخوا میں کم عمر معصوم بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا سلسلہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مزید تیز ہورہا ہے اورپولیس کا کہنا ہے کہ صرف رواں سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران یہ حملے گذشتہ پورے سال میں ہونے والے حملوں سے زیادہ رہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ رجحان کم ہونے کی بجائے بڑھتا جارہا ہے، معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے صوبائی حکومت نے سزاوں میں سختی لانے کا جو فیصلہ کیا ہے اس کے تحت ان حملوں میں ملوث لوگوں کو پھانسی دیتے وقت ان کی ویڈیو بھی بنانے کی تجویز زیرغور ہے تاکہ لوگ اس سے عبرت پکڑسکیں تاہم قانون میں اس تبدیلی کو لانے میں بھی ابھی کئی مراحل طے کرنے باقی ہیں۔
یوں تو پورے ملک سے بچوں پر جنسی تشدد کے بدنما کیسز رپورٹ ہورہے ہیں لیکن خیبرپختونخوا میں رونما ہونے والے بعض واقعات میں ملزمان کی سفاکی نے تو نہ صرف صوبے بلکہ پورے پاکستان میں لوگوں کو دہلا کر رکھ دیا ہے کہ کیا کوئی جنسی خواہشات کی تسکین کے لئے اس حد تک بھی گرسکتا ہے ان واقعات میں جس انداز میں جنسی تشدد کے بعد بچوں کو زبان بندی کے لئے قتل کیا گیا اس کی کہانی منظرعام پر آنے کے بعد والدین میں غم وغصہ پھیلا اورپورے معاشرے سے ان واقعات میں ملوث مجرموں کو سرعام پھانسی دینے اورانہیں نشان عبرت بنانے کی آوازیں اٹھنے لگیں۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق خیبرپختونخوامیں 2020 کے پہلے آٹھ ماہ یکم جنوری سے31 اگست تک بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے 182کیسزرپورٹ ہوئے ہیں جب کہ گزشتہ پورے سال کے دوران 185جنسی زیادتی وتشددکے کیسزریکارڈکئے گئے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق جن بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے وقعات ہوئے گزشتہ سال ان میں سے تین بچوں کو جان سے بھی مارا گیا تھا جبکہ رواں سال سات بچے جنسی زیادتی کے دوران مارے گئے ہیں۔ اس پولیس ریکارڈ کا اگر بنظر غور جائزہ لیا جائے تو 2019 میں بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے185 واقعات رپورٹ ہوئے جن کے مطابق گذشتہ سال 135 لڑکوں اور50 لڑکیوں کو اس قبیح فعل کا نشانہ بنایا گیا اسی ریکارڈ سے یہ بھی ظآہر ہوتا ہے کہ ان مجرمانہ حملوں کے بعد پولیس نے گذشتہ سال مجموعی طور پر 248 ملزمان گرفتارکئے گئے جبکہ2020کے ابتدائی آٹھ ماہ کے دوران182کیسز میں 235 ملزمان پولیس کے ہتھے چڑھے۔ اعدادوشمارکے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسزمیں رواں سال کی پہلی شش ماہی میں گزشتہ سال کے پہلے چھ مہینوں کی نسبت 14فیصد زیادہ کیسزرپورٹ ہوئے ہیں بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے 42,42کیسزپشاوراورمردان ،27کیسزنوشہرہ،12کوہاٹ،17مانسہرہ اورپانچ کیسزبنوںمیں رپورٹ ہوئے ہیں خیبرپختونخواکے27بندوبستی اضلاع میں چترال ،بنوں،تورغر،کوہستان اورہنگومیں بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کاکوئی کیس رپورٹ نہیں ہو اہے ۔رواں سال کے آٹھ مہینوں کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان ،پشاور ،مردان ،نوشہرہ ،سوات اورمانسہرہ میں مجموعی کیسزکے63فیصدکیسزرونماہوئے۔
خیبرپختونخوااسمبلی نے زیادتی کے کیسز سامنے آنے کے بعد خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے اپنی رپورٹ رواں سال فروری میں مرتب کی رپورٹ محکمہ سماجی بہبودکے پاس جمع کی گئی جس میں مزید ترامیم کی گئی اور محکمہ قانون کے ساتھ طویل مشاورت کے بعدمسودہ وزیراعلی محمودخان کوبھیجاگیا وزیراعلی محمودخان نے نئے مسودے کی منظوری دی ہے جس کے تحت بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے ملوث ملزم کو پھانسی دیتے وقت اس کی ویڈیوبنائی جائے گی اوراس ویڈیوکوخصوصی فورمزپراستعمال کیاجاسکتاہے تاہم اس کی عام تشہیرنہیں کی جائے گی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے وقت یہ سزااسوقت تجویزکی گئی ہے جب جنسی زیادتی کے دوران بچے کی موت واقع ہو اسی طرح بچوں کے عام جنسی زیادتی کے سزائوں میں بھی اضافہ کیاگیاہے اب یہ سزا سات سال کی بجائے14سال مقررکی جائے گی بچوں کے حقوق کے لئے خیبرپختونخوااسمبلی کی سرگرم رکن عائشہ بانو نے مسودے کی منظوری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت بچوں کے حقوق اوران کے متعلق سخت سزائیں دینے میں سنجیدہ ہے ہم چاہتے ہیں کہ تمام نشریاتی اداروں اور عوامی فورمزکا بھی استعمال کرتے ہوئے اس متعلق عوام میں شعوربیدارکیاجائے۔ خیبرپختونخواحکومت نے 2012ء میں چائلڈپروٹیکشن اینڈویلفیئرکمیشن ایکٹ کے تحت صوبے کے12اضلاع میں چائلڈپروٹیکشن یونٹس قائم کئے تھے ان تمام یونٹس کے مالیاتی امور کے لئے فنڈنگ یونیسف کے ذریعے ہوتی تھی تاہم بعدازاں یونیسف نے مزید فنڈدینے سے انکار کردیا اوریکم جنوری2019ء کے بعد یہ تمام 12یونٹس غیرفعال ہوگئے ہیں۔ چائلڈپروٹیکشن کمیشن کے انچارج اعجازخان بتاتے ہیں حکومت نے وعدہ کیاہے کہ ان تمام یونٹس کی بحالی کیلئے فنڈزفراہم کیاجائے گا بہت جلد اس سے متعلق اشتہارات بھی نشریاتی اداروں میں مشتہرکئے جائینگے۔ بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنیوالی ایکٹیویسٹ ویلرے خان کہتی ہیں بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے مجرمان کیلئے عمومی طور پر جذبات میں سرعام پھانسی کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں یا اس طرح کے مطالبات کئے جاتے ہیں جو حقیقت کے برعکس ہیں۔ سپریم کورٹ اوروفاقی شریعت کورٹ نے سرعام پھانسی دینے کی مخالفت کی ہے اورواضح کیاہے کہ اس طرح کی سزائیں پاکستان میں نہیں دی جاسکتی اسی طرح اب اگر بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے مجرموں کی ویڈیوبھی بنائی جائے گی تو اکثریت کی بنیاد پر یہ قانون تو پاس کیاجاتاہے لیکن اگراس قانون کیخلاف کسی نے عدالت سے رجوع کیا تو اس کوکالعدم قراردیاجاسکتاہے ۔بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنیوالے ایکٹیوسٹ عمران ٹکرسے پوچھاگیاتوانہوں نے کہاکہ مخصوص اضلاع کے مختلف امورکاہم نے بھی تفصیل سے جائزہ لیاہے لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ان اضلاع میں عوام کے اندر شعوربھی زیادہ ہے اوریہی وجہ ہے کہ یہ کیسزرپورٹ ہورہے ہیں انہوںنے وضاحت کی کہ پورے صوبے میں بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے کیسزکے اعدادوشمار پولیس کے فراہم کردہ ڈیٹاسے کئی زیادہ ہونگے لیکن وہ کیسز رپورٹ نہیں ہوتے انکومقامی سطح پر جرگوں ،علاقائی اثرورسوخ یا دھونس کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے جسکی وجہ سے ہمیں درست اعدادوشمارنہیں آتے لیکن مخصوص اضلاع میں یہ کیسزرپورٹ ہورہے ہیں