پاکستان، ترکی اور آذربائیجان ۔ اخوت اور قانون پسندی کا ایک سبق
خصوصی تحریر: تحریر رسول داوڑ
پاکستان، ترکی اور آذربائیجان آج کل بہترین دوست مسلم ممالک کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ان تینوں کے درمیان دوستی اور تعاون کا رشتہ خلوص، اعتماد اور مشترکہ اقدار پر مبنی ہے۔ حال ہی میں وزیراعظمِ پاکستان میاں شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر نے آذربائیجان کے صدر الہام علییف سے صدارتی محل میں ملاقات کی، جس میں باہمی تعلقات اور تعاون کو مزید مضبوط بنانے پر بات چیت ہوئی۔
وزیراعظم نے صدر علییف کو یومِ فتح کی تقریب میں شرکت کی دعوت پر شکریہ ادا کیا اور قرہ باغ کی آزادی کی 44 روزہ جنگ میں آذربائیجان کی تاریخی فتح کو بہادری کی علامت قرار دیا۔ پاکستان نے اس جنگ میں آذربائیجان کا ساتھ دیا تھا، جبکہ بھارت نے روایتی طور پر آرمینیا کی حمایت کی۔ یہی وجہ ہے کہ آذربائیجان کے عوام پاکستانیوں سے محبت اور بھارتیوں سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔
آذربائیجان اور ترکی کے عوام جب کسی پاکستانی کو دیکھتے ہیں تو خوشی سے کہتے ہیں: “کردیش، کردیش!” یعنی “بھائی، بھائی”۔ ترک اور آذری زبان میں “کردیش” کا مطلب بھائی یا دوست ہے، اور یہی لفظ ان رشتوں کی گہرائی کا مظہر ہے۔
یکم نومبر 2025 کو پاکستان کے مختلف صوبوں سے کہنہ مشق صحافی پاکستان میڈیا کلب (PMC) کی وساطت سے آذربائیجان کے مطالعاتی دورے پر روانہ ہوئے۔ باکو ایئرپورٹ پہنچنے پر ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ایک ساتھی نے سگریٹ سلگایا اور اس کا ٹکڑا فٹ پاتھ پر پھینک دیا۔ ایک مقامی شہری نے فوراً آواز دی، “کردیش، کردیش! پولیس!”
اس لمحے احساس ہوا کہ یہاں قانون کی پاسداری ہر شہری کے لیے لازم ہے۔ فوراً وہ سگریٹ کا ٹکڑا اٹھایا گیا، اور وفد کے تمام ارکان کو اندازہ ہوا کہ آذربائیجان میں صفائی اور نظم و ضبط محض نعرہ نہیں بلکہ طرزِ زندگی ہے۔
آذربائیجان میں سڑک پار کرنے کے لیے ٹریفک سگنل کے سبز ہونے کا انتظار ضروری ہے۔ ہارن بجانے کا تصور تقریباً ناپید ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں لوگ خاموشی سے سفر کرتے ہیں اور بات چیت بھی دھیمے لہجے میں کرتے ہیں۔ ہر طرف صفائی کا یہ عالم ہے کہ گندگی ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آتی۔
پاکستان میڈیا کلب کے چیئرمین ضیاء خان نے نظامی اسٹریٹ کے قریب وفد کے لیے شاندار رہائش اور بہترین کھانے پینے کا انتظام کیا۔ یہ دورہ کسی سرکاری یا این جی او فنڈ سے نہیں بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت منعقد کیا گیا، جس کے بیشتر اخراجات خود شرکاء اور پی ایم سی نے برداشت کیے۔
وفد نے باکو میں پاکستانی سفارت خانے کا بھی دورہ کیا، جہاں سفیرِ پاکستان جناب قاسم محی الدین نے وفد کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے بتایا کہ آذربائیجان اور پاکستان مذہب، ثقافت اور تاریخ کے رشتوں سے منسلک ہیں۔ تاہم افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آذربائیجان میں بیشتر پاکستانی قانونی یا کاروباری تنازعات کی وجہ سے مشکلات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
سفیر نے زور دیا کہ آذربائیجان کے شہری قانون پسند، شائستہ اور صفائی پسند ہیں۔ یہاں کسی پر مذہبی یا مسلکی جبر نہیں، مگر قانون شکنی برداشت نہیں کی جاتی۔
آذربائیجان میں عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر مکمل پابندی ہے، صرف مخصوص اسموکنگ ایریاز میں اجازت ہے۔ زمین پر کوئی چیز پھینکنا جرم ہے اور ہر شہر میں سی سی ٹی وی نگرانی موجود ہے۔ پولیس اہلکار عام طور پر بغیر اسلحے کے ڈیوٹی دیتے ہیں، اور فوج عوامی مقامات پر نظر نہیں آتی۔
شاپنگ ایریاز میں گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ دکانوں میں سامان ترتیب سے رکھا جاتا ہے اور تجاوزات کا کوئی تصور نہیں۔ آذربائیجان کا قومی پرچم ہر جگہ لہراتا ہے، مگر کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کا جھنڈا دکھائی نہیں دیتا۔
مقامی پاکستانی کاروباری شخصیات کے مطابق غیر ملکیوں کےلئے کاروبار شروع کرنے کےلئے کم از کم 80 لاکھ پاکستانی روپے بینک میں رکھنا لازمی ہے۔ ابتدا میں تین ماہ کا ویزا، پھر چھ ماہ، ایک سال اور بعد میں تین سال کا ویزا دیا جاتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ 95 فیصد ملازمتیں مقامی شہریوں کو دی جائیں۔
دکانوں میں مرد و خواتین برابر کام کرتے ہیں۔ روسچ ترکیچ بھارت، پاکستان اور دیگر ممالک کے سیاح یہاں عام نظر آتے ہیں۔ باکو کا موسم اسلام آباد کے مقابلے میں قدرے سرد مگر خوشگوار ہے۔
باکو میں مقیم پاکستانی تاجر محبت علی خان (ضلع کرم) اور محمد طارق (پریٹی کیفے کے مالک) نے وفد کی بھرپور میزبانی کی۔ ان کی آنکھوں میں پاکستانی مہمانوں کےلئے خلوص، اپنائیت اور بھائی چارے کے جذبات جھلک رہے تھے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ ہزاروں میل دور بھی پاکستانی پرچم اور پاکستانی نام وہی عزت و احترام رکھتے ہیں جو وطن میں۔
آذربائیجان کی سرزمین پر گزارے گئے یہ چند دن محض ایک صحافتی دورہ نہیں تھی، بلکہ ایک سبق اور احساس بن گئے، کہ ترقی، امن اور صفائی کسی نعرے سے نہیں بلکہ نظم، قانون اور شعور سے جنم لیتے ہیں۔
یہ بھی سمجھ آیا کہ جب قومیں اپنی ثقافت اور اخلاقی اقدار کو مضبوطی سے تھامے رکھتی ہیں تو دنیا میں ان کی پہچان خود بخود روشن ہوجاتی ہے۔
آذربائیجان کے قانون پسند اور محبت سے بھرپور لوگ اس اخوت کے رشتے کو مضبوط بناتے ہیں جو پاکستان، ترکی اور آذربائیجان کو جوڑتا ہے۔
محبتوں کا سفر رہ گیا دلوں تک اب
سرحدوں کا فاصلہ مٹ گیا “کردیش” کہنے سے۔





