صحافتی کشتی اور طوفان۔۔ خصوصی تحریر:- سید زاہد عثمان

پاکستان میں صحافت روزے اول سے نامسائد حالات کا شکار ہے کبھی بھی پاکستان میں صحافت اور صحافیوں کو سازگار ماحول نہیں ملا صحافی برادری ہمہ وقت مختلف چیلنجز سے نبردآزما رہتی ہے، کبھی کہا جاتا ہے مثبت لکھو، کہو، دیکھو کبھی کہا جاتا ہے بات ہی نا کرو کہنے کو پاکستان میں آرٹیکل نائینٹین کے تحت ہر کسی کو حق رائے کی آزادی حاصل ہے مگر صرف کاغذی حد تک باقی کسی کو وہ آزادی نہیں ملی جو یورپ اور باقی ترقیافتہ دنیا میں ہے، یہ بات ضرور ہے کہ کچھ لوگوں کو ہر قسم کی آزادی میسر ہے اور وہ اسکا بھر پور فائدے اُٹھاتے ہوئے لوگوں کو سوشل میڈیا پر خوب ذلیل کرتے ہیں گالیاں دیتے ہیں الزامات لگاتے ہیں بلکہ غدار کا لیبل لگا کر عدالتوں میں گھسیٹتے ہیں
اصل میں اُنکے ہاں آرٹیکل نائینٹن کا مطلب شائد لوگوں کو گالیاں گالیاں دینا ہے، بلکہ فیفتھ جنریشن وار کا نام دے کر جو ذہن میں آئے وہ کر گزرنا ہے
یہ تو وسے بیک گراونڈ کی باتیں ہیں اصل موضوع صحافیوں پر بات ہورہی تھی
آجکل صحافیوں کے خلاف جو ہتھیار استعمال ہورہا ہے، وہ ہے غداری کا لیبل لفافی کا طعنہ اُس صحافی کو زیادہ ذلیل کیا جاتا ہے جو حقیقت کو کسی نہ کسی شکل میں زیادہ بولنے کی کوشش کرتا ہے،پچھلے چھ سال کے ریکارڈ کو اگر دیکھ لیں صرف پاکستان میں 33 صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے اور درجنوں کو مارا پیٹا گیا ہے
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں صحافت کے لئے ماحول کتنا سازگار ہے،اب آتے ہیں موجودہ حالات کی جانب جسمیں صحافیوں کو مزید خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے خطے میں امن وامان کی صورتحال ایک مرتبہ پھر افغانستان کی وجہ سے کشیدہ ہوسکتے ہیں ایسی صورتحال میں صحافیوں کے بولنے ہر قدغن لگ سکتی ہے۔
لیکن دوسری جانب سنئیر صحافی لحاظ علی کہتے ہیں حالات سازگار نہ تھے نہ ہیں نہ شائد امید کی جاسکتی ہے مگر اپنی بات کو اس انداز میں کرنے کا فن سیکھنے کی ضرورت ہے کہ بات بھی ہو جائے صحافتی ذمہ داری بھی قربان نہ ہو اور ناراض ہونے والے بھی خوش رہیں
روایت کچھ اچھی نہیں مگر لحاظ صاحب کی بات کا لحاظ رکھتے ہوئے صحافیوں کو اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اگر اسطرح سے صحافتی کشتی طوفان سے نکلنے کا سبب بنے اور دل نادان کی مرض کی دوا مل جائے۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں