وزیرستان کی آباد کاری.. تحریر شہریار محسود

نائن الیون سے پہلے ہماری دنیا بہت چھوٹی سی تھی، جو ٹانک، ڈی آئی خان اور بنوں سے شروع ہوکر میرعلی میرانشا رزمک مکین لدھا کانیگرم اور وانہ پر ختم ہوجاتیں لیکن حالات نے ہماری یہ چھوٹی سی دنیا بھی تباہ و برباد کرکے رکھ دی. بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا سارا بدلہ ہم نے چکا دیا. میرا تعلق چونکہ محسود علاقے سے ہے لہذا اپنا آج کا موضوع بھی محسود علاقہ ہے. ویسے تو محسود علاقے میں کئی آپریشن کئے گئے لیکن آپریشن راہ نجات اوکتوبر 2009 میں شروع ہوا جس کے بعد ہمارے لوگوں کو ملک کے ہر حصے میں سخت مشکلات کا سامنا رہا. ہمارے لوگوں کے کاروبار نشانہ بنے کاروباری لوگوں کو ڈرا دھمکا کر لوٹا گیا، سینکڑوں لوگ لاپتہ ہوئے، ماوراء عدالت مارے گئے، آٹھ نو سالہ مسلسل آپریشن کی وجہ سے ننانوے فیصد گھر برباد ہوگئے جو پرانے طرز پر بنے تھے اور سخت محنت مزدوری کرنے کے بعد بنائے گئے تھے. 2017/18 میں لوگوں کی واپسی کا اعلان کیا گیا تو محسود علاقوں کے لوگوں میں سب سے بنیادی کمی عدم اعتماد کی رہی، لوگوں کے ساتھ ایسے ایسے دھوکے ہوئے ہیں کہ اب کوئی دوبارہ آباد کاری سے پہلے کئی بار سوچتے ہیں. مثال کے طور پر جن دنوں اپنے گاؤں کے لوگوں کو دوبارہ گھروں کی تعمیر کے لئے ایک چھوٹی سی مہم شروع کردی تھی تو اکثر لوگ یا تو خاموش ہو جاتے یا پھر یہی کہتے کہ فلاں علاقے کے کرنل نے لوگوں سے کہا ہے کہ گھروں پر زیادہ پیسے لگانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایک اور آپریشن بھی ہونا ہے.

ابتدا میں مجھے حیرانگی تھی کہ بلا ایسے کام اب سرعام تو شروع نہیں ہوئے؟ ذہن میں ایک خلش سی پیدا ہوئی کہ میں کسی طرح بھی اس افسر سے ملوں گا جنہوں نے ایسا کہا ہے. ہم نے اپنے علاقے کے تمام تحصیلوں کے چکر لگائے جن جن علاقوں میں گئے ہر علاقے میں مقامی لوگوں سے یہی کہانی سنی البتہ افسر کا رینک اور علاقہ بدلتا رہتا لیکن کوئی بھی ایسا بندہ نہیں ملا جو کسی کا نام لیکر بتاتا یا خود کسی افسر سے سنا ہو، لیکن بات بالکل یقین سے کہا کرتے تھے. بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ایسا کسی افسر نے نہیں کہا بس ہمارے لوگوں پر جو کچھ گزرا ہے یا جو چیزیں وہ محسوس کرتے ہیں وہی احساسات ایسی کہانیوں کی صورت میں سامنے آجاتے ہیں. جس کا نقصان یہ رہا ہے کہ چونکہ شمالی وزیرستان میں پہلے ہی لوگوں کے کاروبار مقامی تھے اسی طرح وانہ میں بھی لوگ مقامی کاروبار سے منسلک تھے لیکن محسود علاقوں میں ایک مکین ہی بڑا بازار رہا جہاں کاروبار پر حالات کے منفی اثرات تو پڑتے رہے لیکن اب گزشتہ دو تین سالوں میں علاقے کے کھلنے کے باوجود مقامی لوگ حالات پر اعتبار نہیں کرپا رہے اور اپنے آبائی علاقے میں سرمایہ لگانے سے کترا رہے ہیں حالانکہ اگر حالات کا موازنہ کیا جائے تو پہلے کے حالات سے اس وقت کے حالات بہت بہتر ہے اور سب سے اہم بات یہ علاقہ پورے خطے میں ایک خوبصورت علاقہ ہے اگر یہاں بنیادی سرمایہ کاری کی جاتی ہے تو یقین مانیں یہ علاقہ بہت ترقی کرے گا. اس سلسلے میں حکومتی کردار نہ ہونے کے برابر رہا ہے جہاں ایک طرف علاقے میں تعلیمی سرگرمیاں شروع نہ کی جاسکیں وہیں دوسری طرف ہیلتھ میں بھی بنیادی کام نظر نہیں آتا حالانکہ حالیہ کچھ ماہ سے مقامی انتظامیہ کچھ نہ کچھ کرنے کی تگ ودو میں مصروف نظر آرہی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس علاقے کو مکمل ترقی دینے کے لیے بہت سارے پیسوں کی ضرورت ہوگی جو اگر ایم این ایز یا ایم پی ایز یا محکموں کی بندر بانٹ کا نشانہ نہیں بنتے تو بنیادی اور پائیدار تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے. اس وقت محسود علاقوں میں دو تین بنیادی کام کرنے کی ضرورت ہے، پہلا یہ کہ تعلیمی اداروں کو مکمل طور پر بحال کیا جائے، دوسرا یہ کہ ہر سب ڈویژن کے افسر کو اپنے علاقے میں ہونا چاہیے نہ کہ ٹانک میں،تیسرا یہ کہ ٹور ازم ڈیپارٹمنٹ پر سب سے زیادہ توجہ دی جائے. اگر ان تین چیزوں پر عمل ہوتا ہے تو آنے والے دو تین سالوں میں محسود علاقے بھی مکمل آباد ہو جائیں گے. آخر میں اپنے علاقے کے صاحب دولت لوگوں سے درخواست ہے کہ کم اپنے پیسوں کا کم از کم پندرہ فیصد اپنے علاقے میں انویسٹ کریں یقین مانیں کہ علاقہ بہت اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے بعد میں یہی پندرہ فیصد اس کے پچاسی فیصد سرمائے سے زیادہ فائدہ پہنچائے گا.
شیریار محسود ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تحریر ۔ ۔ ۔ ۔ برائے دی خیبر ٹائمز

اپنا تبصرہ بھیجیں