یتم بچےجائیں؟ تو کہاں جائیں؟ یتیم انتظار میں ہیں، آفاقیات۔۔۔ تحریر رشید آفاق

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں یتیم بچوں کی تعداد 42 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ جن میں اکثر بچوں کے والدین دہشت گردی، قدرتی آفات وحادثات میں جاں بحق ہوئے ہیں، پاکستان میں ایسا کوئی واضح نظام نہیں جس سے ملک بھر میں موجود یتیم بچوں کی صحیح تعداد معلوم کی جا سکے اور اس کی ضرورت اس لئے بھی محسوس نہیں کی گئی ہے کیونکہ ریاست کے پاس ان بچوں کی کفالت کا بھی کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن اگر پاکستان میں اتفاق سے مستقبل میں کوئی ایسی منصوبہ بندی بھی کی گئی تو شائد وہ صرف گنتی کے عمل تک ہی محدود رہے جو کہ پاکستان میں ایک روزگار ہے۔
بات صرف گنتی اور منصوبہ بندی کی نہیں بلکہ قانون سازی کی بھی ہے۔ فی الوقت اگر کسی قانون کےآثار موجود بھی ہیں تو وہ ان یتیم بچوں کو درپیش مسائل کو حل کی طرف لے جاتے نہیں دکھائی دے رہے۔ یتیم بچوں کو گود لینا، وراثت میں ان کا حصہ ، ان کی تعلیم اور پرروش، مالی تحفظ اور معاشرے میں حیثیت تمام ایسے عوامل ہیں جس پر ایک واضح اور عملی قانون سازی کی ضرورت ہے۔
ضرورت کے تحت اگر یتیم بچوں کی کفالت کے موضوع کو چھیڑا جائے تو یہ بات مکمل طور پر واضح ہے کہ یتیم بچے بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں معاشرے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کبھی کبھار خصوصی توجہ دینے کے بجائے ان یتیم بچوں کو باقاعدہ ذمہ داری سمجھ کر ان کوبلحاظ مفہو م اصل زندگی کی طرف لے جائیں۔ یہ بات شائد سننے میں تصوری لگے گی لیکن ایک مشہور کہاوت ہے کہ جہاں چاہ وہاں راہ۔ بس اپنے پاس احساسات سے بھرا دل ہو جو ان یتیم بچوں کے احساسات سے جڑ جائیں۔
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اگر اتفاق سے کسی بیوہ کی شادی ہو جاتی ہے تو یتیم بچوں کا سوتیلا باپ بچوں کو یا تو اپنانے سے انکار کر تا ہے اور یا پھر ان کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ کرتا ہے کہ ان بچوں کی زندگی ایک اذیت بن جاتی ہے۔
ہمارا معاشرہ اس قسم کے واقعات کی گواہ بھی کہ اس قسم کے برتاؤ سے اگر ایک طرف فرد اور افراد کی زندگی برباد ہوتی ہے تو دوسری طرف معاشرے بگاڑ بھی پیدا ہوتا ہے۔
حقوق نام تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں یا پھر یہ کہہ لیں کہ پیسے کمانے کا فیشن بن چکا ہے۔ بچوں کے حقوق کے لئے کئی سارے ادارے اور پھر قوانین کی بھرمار ہے لیکن حالات کہاں بدلی ان بچوں کی۔ اکثر یتیم بچے خاص طور بچیاں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں کہیں پر یہ نظروں اور حوس کی شکار ہوتی ہیں یا پھر تشدد، ورکشاپس میں 50 روپے کی عوض دن بھر اپنا بچپن پسینے میں بہا دیتے ہیں اور یا بےراہ روی اور حوس کا شکار ہوتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ اور کباڑ اکٹھا کرنے کے شعبہ جات میں نظر آتے ہیں۔ یہ بچے جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ کر جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ ان سے سمگلنگ کا کام لیتے ہیں اور ہیومن ٹریفکنگ کی کمائی کا بھی اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔
یہ تمام وجوہات اور عوامل آخر کار انسان مایوس ہی کر دیتے ہیں ۔ لیکن مایوسی گناہ ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ، اگر ایک طرف نا چاہتے ہوئے بھی یتیم بچے مایوسی کی دلدل میں پھنس رہے ہیں تو دوسری طرف ان کی مایوسی کے کئی اسباب ہیں جن میں کچھ کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے لیکن سب سے بڑی مایوسی تب ہوتی ہے کہ جب کچھ نام نہاد نجی ادارے ان یتیم بچوں کو موضوع بنا کران کے نام پر خیرات زکواۃ کی شکل میں انسانیت کے قدردانوں سے پیسے بٹور تے ہیں۔ اس اقدام سے اگر ایک طرف ان یتیم بچوں کے دلوں پر مزید مایوسی کے وار ہوتے ہیں اور ان کو اپنے روشن مستقبل کے دیئے بجھتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف انسانیت کے قدردانوں کے دل بھی ٹوٹ جاتے ہیں اور وہ مزید کسی پر اعتبار کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔
لیکن ان یتیم بچوں کی مایوسیاں ختم کرنے اور انسانیت کے قدردانوں کا اعتماد بحال کرنے میں کچھ نجی ادارے اپنا بہترین کر دار ادا کر رہے ہیں ، بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ ان ادروں کا نام ہی اعتماد ہے۔
کئی سارے ادارے یتامیٰ کی کفالت کی ذمہ داری بخوبی نبھا رہے ہیں لیکن ان میں الخدمت فاؤنڈیشن کا نام سرفہرست ہے۔
الخدمت فاؤنڈشن کسی کا تعرف کا محتاج نہیں بلکہ اس کی خدمات کا ہر کوئی قائل ہے ۔ یہ میری ذاتی رائے نہیں بلکہ مقبول عام رائے ہے۔
یوں تو الخدمت فاؤنڈیشن کئی سارے شعبہ جات جن میں تعلیم، صحت، کمیونٹی سروسز، مواخات، آفات سے بچاؤ، صاف پانی اور دیگر ذیلی شعبہ جات میں کام کررہی ہے لیکن یتامیٰ کی کفالت کے شعبہ پر اس کی خصوصی نظر ہے اور یتیم بچوں کے روشن مستقبل اور بہترین زندگی کے لئے لازوال کوششوں میں محوعمل ہے۔
الخدمت فاؤنڈیشن اس وقت ملک بھر میں13875 یتیم بچوں کی کفالت کر رہی ہے ۔ اس مقصد کے لئے الخدمت فاؤنڈیشن نے ملک بھر میں 13 آغوش ہومز قائم کئے ہیں جو کہ اپریشنل ہیں جبکہ 8 آغوش ہومز تعمیراتی مراحل میں ہیں اور مزید 6 آغوش ہومز قائم کرنے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ اس طرح شام کے متاثرین کے لئے غازی انطیب ترکی میں بھی ایک آغوش ہوم قائم کیا گیا ہے۔
یتیم بچوں کوان آغوش ہومز میں زندگی کے تمام سہولیات یعنی رہن سہن ، کھانا پینا، تعلیم، غیر تعلیمی سرگرمیاں اور صحت کی سہولیات شامل ہیں فراہم کی جاتی ہیں۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ یتیم بچے جو کہ اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں ان میں اس الخدمت اپنے محدود وسائل میں رہ کر 12000 سے زائد یتیم بچوں کو سپانسر کررہی ہے۔ ان یتیم بچوں کو الخدمت ماہانہ 4000 روپے وظیفہ دے رہی ہے۔
دوسری جانب ان یتیم بچوں کی ماؤں کو بھی اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے بھی الخدمت اپنے محدود وسائل میں رہ کرقرض حسنہ کی صورت میں مدد کر رہی ہے۔ ان ماؤں کو مواخات پروگرام کے تحت بلا سود کے 50 ہزار روپے کا قرض حسنہ دیا جاتا ہے ۔ اس وقت صرف خیبر پختونخوا میں 69 بیوہ اس پروگرام میں رجسٹرڈہیں۔
پاکستان میں یتیم بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن الخدمت جیسا خیراتی ادارہ اپنے کم وسائل کی وجہ سے اب تک اتنے ہی یتیم بچوں کو سپانسر کرنے میں کامیاب رہا ہے جوکہ دیکھا جائے تو مایوسی کے اس الم میں ایک مسیحا کا کردار ادا کرہی ہے۔ الخدمت کا یہ سفر جاری ہے اور اسی کوشش میں ہے کہ ان تمام یتیم بچوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر ان کو ایک اچھی زندگی اور بہتر مستقبل فراہم کرے۔
تمام باتوں کی ایک ہی بات کہ ہم مسلمان ہیں اور ایک مسلمان معاشرے میں رہ رہے اور ایک مسلمان معاشرے کی بنیاد انسانیت پر ہے ۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے یتیم بچوں کی اچھی پرورش و پرداخت کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی ہے اور فرمایا کہ میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے اور اپنی شہادت اور درمیانی انگلیوں کو قریب فرماکر اشارہ فرمایا۔
حضرت ابو الدرداء ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺکے پاس ایک شخص آیا اور اپنی قساوتِ قلب اور سنگدلی کی شکایت کی توآپؐ نے ارشاد فرمایا:
اگر تم نرم دلی اور رقت قلب چاہتے ہو تو یتیم بچوں کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آؤ،ان سے پیار کرو اور انہیں کھانا کھلاؤ۔” “

اپنا تبصرہ بھیجیں