مثالی پولیس اور مثالی کارنامہ؟ آفاقیات، تحریر رشید آفاق،

افاقیات

ہمارے وزیرستان کے ایک مسجد میں نمازیوں نے ایک پوڈری کو جوتے چوری کرتے ہوئے پکڑا، پھر دو تین سو نمازیوں نے مل کر پوڈری کو مارنا پیٹنا شروع کردیا، بیس تیس منٹ مارنے کے بعد وہاں ایک خدا ترس بندے نے کہا کہ بس اب چھوڑ بھی دو، کیا اب اس بے چارے کی جان لوگے؟ وہ بھی ایک جوڑہ جوتے کے لئے؟ اس پر پوڈری نے زمین پر پڑے اور مار کھاتے ہوئے صدا لگائی کہ نہیں مجھے مارنے اور مرنے دو، ان بے چارے عوام نے پہلے کھبی چور نہیں دیکھا ہوگا لہذا پہلی بار چور شریف سے ملاقات ہوئی ہے، بس ان کو مت روکو تاکہ دل کے سارے ارمان نکالے۔
تہکال اور یکہ توت پولیس نے عامری کے ساتھ جو کیا اس سے تو ایسا لگتا ہے جیسے پولیس نے پہلی بار غلطی کی ہے اور ان کو پہلی بار گالیاں پڑ گئی ہو، اگر پہلی بار ایسا ہوا ہے پھر تو پولیس کا یوں دیوانہ وار طیش میں انا اور اپے سے باہراکر ایک شہری کی عزت نیلام کرنا سمجھ میں آتا ہے لیکن اگر یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے پھر پولیس کا یوں پورے پختون کلچر کو سبوتاژ کرنے یا کھیلواڑ کرنے کا عمل سمجھ سے بالاتر ہے، یہ بھی نہ سمجھنے والی بات ہے کہ آخر پولیس کو یہ اختیار کس نے دیا ہے، ویسے ایک بات ہے کہ عامری نے ایس ایچ اوز ڈی ایس پیز کو گالیاں دی تھیں، اگر سوچا جائے تو ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز یہاں درجنوں کے حساب سے ہیں، لیکن ایس ایس پی آپریشن پشاور میں ایک ہی ہے، اس لئے کہا جارہا ہے کہ موصوف نے عامری کو مقبوضہ کشمیر کا پولیس مین یا منگل باغ کا کوئی طالب سمجھ کر اس پر جھپٹ اور پھر پلٹ کر جھپٹنے کے احکامات صادر فرمائے اور پھر بھیگی اور کسھیانی بلی بن کر ایک ویڈیو بھی بنائی جس میں تین چار پولیس اھلکاروں کو معطل کرکے مگرمچھ کے آنسووں بھی بہائے، لیکن موصوف کو پتہ نہیں تھا کہ یہ سوشل اور سٹریم میڈیا کا دور ہے بکروں کی یہ ماں آخر کب تک خیر منائیگی؟ بس پھر یہی ہوا کہ جب پتہ چلا کہ کارنامہ تو حاجی صاحب نے بنفس نفیس ھدایات دیکر سرانجام دیا ہے اور پھر موصوف کو معطل کرکے یہ بتایا اور سمجھایا گیا کہ معطلی کسے کہتے ہیں ؟ لیکن اب اسے یہ بھی شائد معلوم نہیں کہ آگے کیا ہونے جارہا ہے؟ کیونکہ یہ تو شروعات ہے ابھی اس کارواں میں مزید یار غاروں نے بھی شامل ہونا ہے۔

یہ بھی پڑئے :  نہ جانے یہ پتھر کب موم ہوجائیگا۔۔ تحریر: کاشف عزیز


ویسے جب تحقیقات کا آغاز ہوگا تو یہی پولیس کانسٹیبلز روبوٹ کی طرح مینا بن کر بولنا شروع کر دینگے کہ کس کس نے کہا تھا کہ عامری پر کہاں کہاں اور کیسا کیسا وار کرنا ہے، پھر لگ پتہ جائیگا جی، ابھی یہ سلسلہ معطلی سے بھی آگے اور بہت آگے جانے والا ہے اور اس سلسلے میں فہرست تیار ہونے جارہا ہے۔
اس میں جس ایس ایچ او کو معطل کیا گیا ہے اس بارے میں مشہور ہے کہ اس کو دوسروں کے کپڑے اتروانے کا اتنا شوق ہے جتنا ایک نئے دولہے کو اپنی دلہن کو دہکھنے کا شوق سر چڑھ کر ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تفتیش کے دوران وہ اکثر ملزموں کے کپڑے اترواتا تھا پھر عامری نے تو ان کے آقاؤں کو گالیاں دی تھی وہ پھر کپڑے نہ اترواتا تو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کیسے بنتا؟
ہاں البتہ اس پورے کیس میں جہاں عام پولیس کی بدنامی ہوئی ہے شائد وہاں مختیار خان جیسے بے گناہ اور شریف النفس ڈی ایس پی بھی زیر عتاب آجائینگے کیونکہ کیس ان کے حدود میں ہوا ہے، اگرچہ اس بے چارے کو پتہ بھی نہیں تھا لیکن نظام اور دوسروں کو بچانے کی روایت شائد مختیار خان کو بھی نہ بچائے؟ اس کے علاوہ پولیس والوں پر جو ایف آئی ارز درج کئے ہیں ان میں بنیادی دفعات شامل ہی نہیں کئے گئے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کررہی ہے کہ پولیس کے اعلی افسران اب بھی عامری پر کئے گئے مظالم کو خاطر میں بھی نہیں لارہے ہیں بس اپنے پیٹی بندھ بھائیوں کو بچانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں جو ایک اچھی روایت بالکل بھی نہیں ہے، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بارے انصاف کے تمام تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے ورنہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری، یہ کیس صوبائی حکومت کے لئے بھی ایک ٹیسٹ اور ماڈل کیس بنتا جارہا ہے، لہذا یہ فیصلہ بھی ہماری صوبائی حکومت نے کرنا ہے کہ قصوروار پولیس والوں کو بچانا ہے یا اپنی ساکھ؟
خدا ھم سب کا حامی عناصر ہو، اور کسی بھی قوم کا جوان عامرے بن جائیں، اور نہ ہی ایسے پولیس والے محافظ ۔

یہ بھی پڑھئے: صلاح الدین سے عامر تہکالی تک ۔۔۔۔۔تحریر : زاہد عثمان

 

مثالی پولیس اور مثالی کارنامہ؟ آفاقیات، تحریر رشید آفاق،” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں