افغان مہاجرین ۔۔ واپسی کی کہانی

طورخم کے قریب جب سورج ڈھلتا ہے، تو مٹی اور دھول کے بادلوں کے بیچ لمبی قطاریں بنتی ہیں، مائیں اپنے بچوں کے ہاتھ تھامے، بوڑھے اپنے لاٹھیوں کے سہارے، اور نوجوان اپنے کاندھوں پر بوجھ کے ساتھ چلتے ہیں، ان کے چہروں پر ماضی کی یادیں، حال کا بوجھ، اور مستقبل کی بے یقینی لکھی ہے، یہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے پاکستان کی فضا میں جنم لیا، یہاں کے اسکولوں میں پڑھا، اور اب پہلی بار اپنے “وطن” جا رہے ہیں ، ایک ایسا وطن جسے وہ صرف اپنے والدین کی کہانیوں سے جانتے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سات دہائیوں پر محیط ہجرت اور میزبانی کا سلسلہ اب اپنے انجام کے قریب محسوس ہوتا ہے، 2023 کے اواخر سے شروع ہونے والا واپسی کا یہ سفر 2025 میں ایک منظم مگر دردناک صورت اختیار کر چکا ہے، سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کبھی چالیس لاکھ سے زائد افغان پاکستان میں آباد تھے، اب تک 30 سے 35 لاکھ اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں، مگر اب بھی 8 سے 9 لاکھ افراد پاکستان کے شہروں، قصبوں اور کیمپوں میں رہ رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو یا تو رجسٹریشن کے منتظر ہیں یا کسی محفوظ دن کا انتظار کر رہے ہیں جس دن وہ سرحد پار کر سکیں۔
طورخم، چمن، غلام خان اور انگور اڈہ ، یہ چار نام اب تاریخ کے اوراق پر نہیں بلکہ انسانی ہجرت کے نوحے بن چکے ہیں، یہاں روزانہ ہزاروں خاندان پیدل یا ٹرکوں پر سوار ہو کر افغانستان کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور حکومتِ پاکستان نے ان راستوں پر ٹرانزٹ کیمپس قائم کر رکھے ہیں، مگر قطاریں لمبی ہیں، سورج تیز ہے، اور تھکن گہری۔

ایک ماں اپنے بچے کو سینے سے لگائے دھیرے سے کہتی ہے: “یہ مٹی بھی ہماری تھی، مگر اب یہ زمین پر سائے ہمیں قبول نہیں کرتی…” واپس جانے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں ، کل آبادی کا تقریباً ستر فیصد بچے اپنی کتابیں اور پرانے اسکول کارڈ اٹھائے ہیں، جیسے ماضی کو کسی طرح بچا لینا چاہتے ہوں، خواتین کے چہروں پر ایک خاموش صبر ہے، جیسے وہ جانتی ہوں کہ اگلا سفر بھی آسان نہیں، کئی بزرگوں نے راستے میں کہا: “ہم نے دو ملکوں میں زندگی گزاری، مگر کہیں بھی مکمل گھر نہیں ملا۔”
یہ واپسی صرف رضاکارانہ نہیں، بلکہ وقت اور حالات کا فیصلہ ہے، پاکستان میں غیر رجسٹرڈ افغانوں کے خلاف کارروائیاں، روزگار کے مواقعوں کی کمی، اور اقوامِ متحدہ کی واپسی پر دی جانے والی مالی مدد ، سب نے مل کر ایک نیا رجحان پیدا کیا ہے، کچھ لوگ خوف سے جا رہے ہیں، کچھ امید سے۔

جب وہ لوگ طورخم پار کرتے ہیں، تو سرحد کے اس پار دھول اڑتی ہے، اور افغانستان کے اندر قائم عارضی کیمپوں میں انہیں رجسٹریشن کارڈ، تھوڑا سا کھانا، اور “خوش آمدید” کے الفاظ ملتے ہیں، مگر چند ہی دنوں میں وہ حقیقت سے آشنا ہو جاتے ہیں ، رہائش محدود، روزگار نایاب، اور تعلیم کا نظام غیر یقینی، بین الاقوامی ادارے خبردار کر چکے ہیں: اگر یہ سلسلہ بغیر منصوبہ بندی کے جاری رہا، تو افغانستان کے اندر ایک اور انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔

پاکستان نے اپنی بساط کے مطابق انہیں پناہ دی، اب وقت ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر واپسی اور بحالی کے لیے ایک پائیدار فریم ورک بنائیں، یہ محض لوگوں کی نقل و حرکت نہیں، بلکہ تاریخ کا اختتام اور ایک نئی شروعات ہے، طورخم کی غبار آلود شام میں ایک چھوٹا لڑکا اپنی ماں سے کہتا ہے: “امی، کیا افغانستان بھی ایسا ہی لگے گا جیسے خواب میں لگتا ہے؟”
ماں مسکراتی ہے، مگر آنکھوں میں نمی ہے ، وہ جانتی ہے کہ یہ سوال صرف ایک بچے کا نہیں، بلکہ پوری نسل کا ہے جو شناخت کی تلاش میں سرحد پار جا رہی ہے۔

واپسی کے اس سفر میں انسانیت کے کئی رنگ ہیں ۔۔۔ امید، جدائی، خوف اور شکرگزاری۔۔۔ یہ کہانی کسی ایک خاندان کی نہیں، بلکہ ایک پوری قوم کی ہے جس نے پناہ سے واپسی تک کا سفر طے کیا، تاریخ کے پنوں پر یہ صفحہ بند تو ہو رہا ہے، مگر اس کی بازگشت ابھی دیر تک سنائی دیتی رہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں