صحافت کھیل اور معلومات تک رسائی کا قانون ۔۔ تحریر: مسرت اللہ جان

کسی زمانے میں ٹھیکے ٹھیکیداروں تک محدود ہوا کرتے تھے اب زمانہ تبدیل ہو گیا ہے ٹھیکیدار تو نیچے ہوگیا. جدید دور کیساتھ اب کنٹریکٹر ہوتا ہے جس کے بعد سب کنٹریکٹر کا نمبر آتا ہے اور پھر آخر میں ٹھیکیدار آتا ہے . جس زمانے کی میں بات کررہا ہوں اس وقت ٹھیکیدار صرف کنسٹرکشن کی شعبے تک محدود تھے اب تو ماشاء اللہ ہر شعبے میں ٹھیکیدار آگئے ہیں -آپ کے ذہن میں جو بھی شعبہ آتا ہے اسی میں کنٹریکٹر ، سب کنٹریکٹر اور ٹھیکیدار ماشاء اللہ پیدا کردئیے گئے ہیں. حتی کہ اب کھیل کا شعبہ بھی ٹھیکیداری نظام میں چل رہا ہے .
وقت کی جدت کیساتھ ساتھ اب ٹھیکیدار ، کنٹریکٹر اور سب کنٹریکٹر بھی تبدیل ہوگئے ہیں تاہم جس طرح کسی زمانے میں ٹھیکیدار زیادہ تر موٹے پیٹ والے ہوا کرتے تھے ٹھیکیدارکی تقریبا صورتحال آج بھی ایسی ہے کنٹریکٹر اور سب کنٹریکٹر سمارٹ ہیں اور ٹھیکیدار ماشاء اللہ پیٹ سے پورے ہیں .رہی ٹھیکے لینے کیلئے ہر جائز و ناجائز حربے کو استعمال کرنے کی . تو جس طرح ماضی میں ٹھیکیدار سرکاری افسران کو خوش کرنے کیلئے بہت کچھ کرتے تھے اسی طرح آج کل کے ٹھیکہ دار بھی یہی کررہے ہیں .

بات کہیں سے کہیں اور نکل گئی .آج اگر آپ نے کوئی سپورٹس کا ایونٹ کرنا ہے تو جس طرح جلسوں کیلئے لوگ ٹھیکوں پر بلائے جاتے تھے اس طرح اب سکولوں و کالجز سے طلباء و طالبات کھیلوں کیلئے بلائے جاتے ہیں مخصوص لوگ سرکاری افسران کو خوش کرنے کیلئے کھیلوں کی سرگرمیوں کیلئے بچوں اور بچیوں کو بلاتے ہیں انہیں آگے رکھتے ہیں. اور یہ عمل کثیر المقاصد کیلئے استعمال ہوتا ہے.
سپورٹس کا کوئی ایونٹ میڈل/ ایوارڈ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ، اسی طرح جو لوگ آئے ہوتے ہیں انہیں خوش کرنے کیلئے چائے پانی کا خرچہ بھی اٹھانا پڑتا ہے اسی طرح بعض ادارہ کوریج کرنے والوں کو سپورٹس کٹس ، شوز فراہم کرتے ہیں تاکہ ان کی مشہوری ہو جائے جو کہ بعض اوقات ہو بھی جاتی ہیں لیکن لوگ اسے اپنے ذاتی ملکیت سمجھنے لگتے ہیں اور پھر دینے والوںپر احسان کیا جاتا ہے کہ ہم نے یہ کردیا وہ کردیا..
کسی بھی سپورٹس ایونٹ کیلئے ایونٹ میڈل خریدنا بڑے دل گردے کی بات ہے کیونکہ سرکاری افسران کو اس شعبے میں خوش کرنا بہت مشکل ہے لیکن جب ایک کی خوشی دوسرے کیساتھ منسلک ہو تو پھر ایک دوسرے کی خوشی کا خیال رکھتے ہوئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے. بس یہی حال ہے ہمارے ٹھیکیداری صحافت کا. اس شعبے میں ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے تو پھر بہت کچھ ہے جس طرح کی صحافت آج کل دکانداری بن چکی ہے یعنی ہر کوئی اپنا چورن بیچ رہا ہے لیکن اگر کوئی سچ کا چورن بیچتا چاہتا ہے تاکہ لوگوں کے پیٹوں میں پڑا گندا مواد نکل سکے تو پھر دو نمبر چورن بیچنے والے برداشت نہیں کرپاتے.
برداشت پر بات آئی ہے تو تبدیلی والی سرکار نے ایک کام بہترین رائٹ ٹو انفارمیشن کا کیا ہے جس کے ذریعے عام شہری کسی بھی ادارے کی معلومات حاصل کرسکتے ہیں تاہم اس کیلئے قانون پندرہ دن کا رکھا گیا ہے کہ یعنی پندرہ دن کے اندر متعلقہ ڈیپارٹمنٹ آپ کو معلومات فراہم کرنے کا پابند ہے لیکن اگر فراہم نہیں کرتا تو پھر رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن میں درخواست دیکر معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں یہ الگ بات کہ آغاز میں عوامی خدمات پر کام کرنے والے رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن نے بہت اچھا کام کیا اب تو لگت ہے کہ یہ لوگ بھی بیورو کریسی کی پکڑ میں آگئے ہیں اور اب وہاں بھی معلومات تک رسائی مہینوں کے بعد ملتی ہے . خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے.ہم نے تقریبا ایک چھ ماہ قبل سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو ایک درخواست لکھ کر دی جس کا جواب ابھی تک نہیں مل سکا رائٹ ٹو انفارمیشن کو شکایت کی تو وہاں تو سلسلہ تاحال جاری ہے. تاہم گذشتہ روز ایک صحافی دوست نے گلہ کیا کہ ایک صاحب کہہ رہے ہیں کہ ” صحافی ” پاگل ہوگیا ہے کل کلاں کو یہ ہم سے بیوی اور بچوں کے بارے میں پوچھے گا تو ہم کیا اسے یہ معلومات بھی دیںگے.جواب تو میرے صحافی دوست نے اچھا دیدیا لیکن اس سے ایک تاثر یہ مل گیا رائٹ ٹو انفارمیشن کے ذریعے معلومات دینا شائد سرکاری ملازمین اپنی بے عزتی سمجھتے ہیںاور سرکار کی ملازمت ، گاڑیوں کا استعمال کے بارے میں پوچھنے کو غلط سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں عوام محکوم ہیں اور انہوں نے ٹھیکیداری نظام صحافت کے ذریعے انہیں کنٹرول کر رکھا ہے.

رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت معلومات نہ دینے والے سرکاری افسران اپنے آپ کو مالک تو سمجھتے ہیں لیکن سپورٹس کے میدانوں کیساتھ انکا تعلق کرائے دار جیسا ہوتا ہے یقین نہ ہو تو ڈائریکٹریٹر سپورٹس خیبر پختونخواہ کی نئی بننے والے فٹ بال سٹیڈیم کے باتھ رومز کا حال دیکھنے جائیں تو پتہ لگ جائیگا کہ اپنے آپ کو مالک سمجھنے والے یہ سرکاری افسران اگر اپنے گھروں کے تعمیر کے معاملے میں کتنے باذوق ہوتے ہیں لیکن جب غریب عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ان کے دستخطوں سے جاری ہوتا ہے تو پھر انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی کہ متعلقہ کام مکمل ہوا ہے کہ نہیں بس ٹھیکیدار کو آدائیگی کی جاتی ہیں اور پھر۔۔۔۔ کام خلاص..

اپنا تبصرہ بھیجیں