پشاور( تجزیہ ناصر داوڑ ) کئی ماہ قبل طالبان ترجمان پشاور میں قید سے پراسرار طورپر فرار ہوجانا۔۔۔۔۔۔ پھر ترکی کے موبائل نمبر سے خود ان کا دعویٰ کہ وہ پاکستان کی قید سے فرار ہوکر ترکی پہنچ گئے ہیں، وہ بھی اپنی اہلیہ اور بچوں سمیت۔
ویزہ کا حصول ۔ ۔ سرحد پار کرنا ۔ ۔ سمندری سفر، یا فضائی سفر کیسے ممکن جبکہ ملک سے باہر جانے پر پابندی ہو؟ چہرہ بھی مطلوب ؟ شخصیت بھی مطلوب یہ سارے سوالات ملک کے عوامی اور سیاسی حلقو میں گونجتے رہے۔
احسان اللہ احسان ہی تو تھے، جو خود کش حملوں، بم حملوں اور دہشتگردی سے تباہ کاریوں کی طالبان کی ترجمان کی حیثیت سے ذمہ داری قبول کرتے رہے۔ نہ بھولنے والی شخصیت ۔ لوگوں کے ذہنوں سے کیسے احسان اللہ احسان کا نام مٹایا جاسکتا ہے؟ ملالہ پر حملے کی ذمہ داری بھی انہوں نے ہی قبول کی تھی۔
احسان اللہ احسان نے اپنے “فرار“ کی کہانی تفصیل سے بیان کی ہے، کسطرح انہوں نے سرنڈر کیا ؟ کس کی ایماپر کیا ؟ ریٹائرڈ میجر عامر اور ان کے بھائی مولانا طیب طاہری کے ناموں کا انکشاف بھی احسان اللہ احسان نے کیا ہے، کہ ان شخصیات نے پاکستانی اداروں کے حوالے کرنے میں کردار آدا کیا تھا۔
پھر ان کا دعویٰ کہ سرنڈر کے وقت ان سے بھاری رقم آدا کرنے اور کئے گئے دوسرے وعدے نہ پورے ہوئے۔ بقول احسان اللہ احسان کے انہوں نے فرار اختیار کیا، کیونکہ معاہدے کی “خلاف ورزیوں” کے بعد وہ ڈیل کے پابند نہیں رہے۔
اور اب احسان اللہ احسان کے نام سے منصوب یوٹیوب چینل پر 11منٹ 50 سیکنڈ کا آڈیو پیغام جسمیں فرار کے نئے دعو ے یہی پیغام مقامی صحافیوں کے واٹس ایپ اکاونٹس اور خود ان کے ٹویٹر اکاونٹ پر بھی شیئر کیاگیا۔
احسان اللہ احسان کے فرار کی نئی کہانی ان کی اپنی زبانی نئے دعوے، حلقوں میں نئی بحث۔
مبصرین کے مطابق احسان اللہ احسان اور ان کی خاندان کی 18ماہ کی قید میں اطلاعات گردش میں رہی کہ انہیں ایک سیف ہاؤس میں رکھا اور ان پر وہ پابندیاں نہیں لگائی گئی ، جو ایک قیدی کے ہوتے ہیں، مبصرین کے خیال میں، کیا احسان اللہ احسان پاکستان حکام یا اداروں پر قید کے دوران ایک بوجھ ہی رہے ۔اور ان کی فرار کی کہانی خفت کا باعث بھی بنی۔
جس طرح احسان اللہ احسان کے فرار کی کہانی میں پراسراریت ہے، اتنی ہی ان کے اس دعوے میں کہ وہ پاکستان افغانستان میں نہیں بلکہ ترکی میں ہیں۔