عالمی کروونا وبا اور وزیرستان کے سرکش قبائل کو ایسے ہی چھوڑدیاجائے؟ تخریر۔ عامر خان داوڑ۔

جیسا کہ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ دنیا بھر میں COVID.19 کے نام سے وبا پھیلی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگ فوت ہوگئے، لاکھوں ہسپتالوں میں زیر علاج ہے، اور اسی تناسب سے مسلسل صحتیاب بھی ہورہے ہیں، اسی طرح پاکستان بھی اس وبا کی زد میں ہیں، جو ممالک ہم سے پہلے اس وبا کا سامنا کرچکے ہیں، اس نے مکمل لاک ڈاؤن ہی سےاس کا مقابلہ کرکے جان چھڑائی، ہمارے حکمران بالخصوص وزیراعظم ابھی تک خود تذبذب کا شکار ہے، جو نہ تو مکمل لاک ڈاؤن کے متحمل ہے، اور نہ ہی کوئی فیصلہ کرسکتاہے؟ حکمرانوں کے کچھ غلط فیصلے کے باعث اب لوگ لاک ڈاؤن تو دور کی بات ہے احتیاطی تدابیر بھی اپنانے کو تیار نہیں،،،،، پاکستان میں مکمل لاک ڈاؤن تو ممکن ہی نہیں، کیونکہ یہاں بیشتر آبادی روازانہ اجرت کرکے شام کو کھالیتے ہیں، یہاں غربت کی شرح مہنگائی بے روزگاری کی شرح قدرے ذیادہ ہے، مکمل لاک ڈاؤون شائد وہ ممالک کرسکے جو شام کو ہر گھر کے دروازے پر دستک دے سکے؟ کہ آپ کے ضروریات کیا ہیں؟

حکومت خود قرضوں کے بل بوتے زندہ ہے، تو عوام سے کیا پوچھ سکےگی؟
حالیہ ڈونرز کانفرنس میں وزیراعظم خیرات زکوات یا ڈونرز کیلئے جولی پھیلاتا ہے، اس کے باوجود بھی ہسپتالوں کا حال دیکھا جائے تو شائد کہ وہ حالات کا مقابلہ کرسکے؟ ہر گھر جاکراس کی ضروریات پوری کرنا تو دور کی بات ہے۔ عوام نے خود اپنے لئے کچھ کیا تو کھایا، ورنہ حالیہ حکومت کے علاوہ کوئی حکومت بھی شائد عوام کے دروازے پر دستک دے سکے؟ ویسے ووٹ مانگتے وقت روزانہ کوئی نا کوئی ہر گھر کے دروازے پر روزانہ تین یا چار بار بھی دستک دے سکتے ہیں، لیکن کورونا لاک ڈاؤن میں ایسا کرنا ممکن نہیں؟

یہاں بھی ایک نظر : وزیرستانکالولالنگڑاموبائلفوننیٹورکتحریر: عامرخانداوڑ

ملک میں کورونا یا لاک ڈاؤن پر پھر بھی بات کرینگے، لیکن یہاں آج میں اپ کو سیر کروارہاہوں وزیرستان کا۔۔۔۔۔

وزیرستان پاکستان کا ایک قبائلی خطہ ہے جو حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے ساتھ ضم ہو چکا ہے، جسے قبائلی ضلعے کے نام سےیاد کیا جاتا ہے، یہاں میری ذاتی ریسرچ کے مطابق چین کے ووہان شہر سے جنم لینے والے وائرس کورونا نے اب وزیرستان پر بھی حملہ آور ہوچکا ہے، یہاں پورے وزیرستان کے لوگ کئی دنوں سے پورا کا پورا خاندان مسلسل بخار، کھانسی، نزلہ زکام، سانس کی بیماریوں میں مبتلارہتے ہیں، مگر کورونا کی وبا تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں،

کورونا کے تمام علامات کے باوجود بیمار ہوکر گھر میں رہے؟ تو تمام رشتہ دار اور پورا کا پورا محلہ اس کی بیمارپرسی کیلئے اس کے گھر جاکر موصوف کی بیمار پرسی ، رشتہ داروں کا آناجانا شروع ہوجاتا ہے۔ مجال ہے کہ اس کے سامنے کوئی کورونا کا نام بھی لیاجاسکے، اگر کسی نےکورونا کا ٹسٹ کرنے کا کہا تو بات کہیں اور جانب بڑھ رہی ہے، کہ دیکھو : اللہ تعالیٰ پر ایمان کی بہت کمزوری ہے، اللہ تعالیٰ پر سے بھروسہ کٹ گیا ہے، صحت اور بیماری کون دے رہاہے؟ اللہ پاک ۔۔۔ پھر اس کے سامنے وہی سب سے بڑا بے ایمان ہوگیا جس نے کورونا کا نام لیا۔۔۔۔
یہاں تربور کا معاشرہ ہونے کے ناطے ثواب کی نیت سے عاری یہ لوگ ہر حال میں بیمار پرسی کیلئے کسی بیمار کے گھر جانا ایک رواج بن گیاہے۔

بیشتر ایسے بھی کسز سامنے آرہے ہیں، کہ بیمار پرسی سے واپسی پر وہ شخص بھی اگلے روز چار پائی کا سہارا لیا ہوا ہے، جس سے نہ صرف ان کا اپنا خاندان متاثر ہوگیا ہے، بلکہ ان کی بیمار پرسی کیلئے بھی لوگوں نے آنا ہے، اور کورونا وائرس اتنا ظالم اور ذلیل ہے، کہ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ یہ لوگ بڑے بیوقوف ہیں یہاں سے میں کہیں اور کوچ کرونگا؟

وزیرستان میں کورونا کا شرح خواتین میں ذیادہ ہے، جہاں دیگر خواتین اگر وہ ایک لمحے کیلئے بھی دوسری خاتون کی بیمار پرسی کیلئے آجاتی ہے، تو بلے بلے اس ایک لمحے میں بھی متاثرہ خاتون کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ کر انہیں طرح طرح کے گھریلو نسخے ٹوٹکے بتانا تو کوئی ان سے سیکھیں؟ ان کی پیر اور سر دبانا، ان کو تیل سے مالش کرنا تو ہماری وزیرستانی خواتین پر ہی چھوڑ دی جائے، کیونکہ وزیرستانی خواتین ہی کو پشتون ولی چھوڑ دی جائے تو بہتر رہیگا۔ اس لئے وزیرستان میں کورونا وائرس کی منتقل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہماری خواتین ہی ہیں، جو کسی متاثرہ خاتون کی بیمار پرسی یا تیمارداری سے رخصت ہونے کے بعد اپنے گھر میں ایٹم بم کی طرح کورونا وائرس سمیت داخل ہوجاتی ہے۔

یہاں کے بازاروں میں سوشل ڈیسٹینس ہاتھ تو ویسے بھی بازاروں میں کوئی نہیں ملاتے کیونکہ یہاں ہر کوئی گلے مل رہاہے، گلے ملنے کے بعد ہاتوں سے مصافحہ کرنا ہوتا ہے، کسی سے ہاتھ نہ ملائیں تو آپ واجب القتل مجرم کی طرح ہوگئے،،، مساجد نہ جانے کا کہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مساجد میں وہی صف باندھنا یہاں مسجد میں کوئی بھی سوشل ڈیسٹینس کی بات کریں تو خدا نخواستہ اس پر وہاں کفر کے فتوے بھی لگ سکتے ہیں، یا شائد مار پیٹ تک بھی بات پھیل سکتی ہے،

Code

حالیہ دنوں میں کورونا وائرس کے علامات سے فوتگیاں بھی ہوئی ہیں، پھر بھی کہتے ہیں بغیر کوئی تحقیق کے کھانسی تھی ، مرحوم کو کھانسی کی وجہ سے اسکے سینے میں زخم آگئے، جس کی وجہ سے یہ فوت ہوا ۔۔ حالانکہ انہیں اندازہ ہے کہ کھانسی یا زکام تو زیادہ تر سرد موسم میں آتی ہے، اگر اسے کہا جائے کہ اتنا سوچو کہ اس شدید گرمی کے موسم میں کھانسی اور زکام کیوں آتے ہیں؟ تو بھی دماغ کا استعمال نہیں کرتے۔ بس مخلتف عجیب و غریب قسم کی باتیں انکی زہنوں میں گھس گئ ہیں، جس کیلئے آپ دعا ہی کرسکتے ہیں، سارے بھی ایسے نہیں ہے۔ بعض ایک مکمل احتیاطی تدابیر بھی اپنا لیتے ہیں، میں خود میرانشاہ میں ایک ایسے خاندان کا چشم دید گواہ ہوں ، کے ایک شخص کا کورونا ٹسٹ پازیٹو آیا تھا ۔ تو اسکا سارا خاندان ان کے گھر قرنطین ہوگئے تھے، پڑھے لکھے لوگ پھر بھی تھوڑا بہت احتیاط کرتے ہیں، کورونا ایس او پیز بھی اپنا لیتے ہیں، تاہم کورونا وائرس احتیاطی تدابیر سے عاری لوگوں کی تعداد بہت ذیادہ ہے، جو نہ تو خود احتیاطی تدابیر اپنالیتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے کو سننے کیلئے تیار ہیں، بلکہ اس کے برعکس کورونا کے خلاف غلط افواہیں پھلانے کاکام کررہے ہیں۔

غلط افواہیں پھیلانے والوں میں دیگر سادہ لوح شہری بھی آکر ذہنی تناؤ اور وبا کا شکار ہوجاتے ہیں،
کورونا وائرس، ان کے پھیلاؤ یا احتیاطی تدابیر سے کوئی بھی باشعور شہری انکار نہیں کرسکتا، کیونکہ اج کے دور جدید میں میڈیا یا سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم ہے، تاہم یہاں بجلی، ٹی وی ، موبائل یا انٹرنیٹ تک رسائی ہے نہیں یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے،
جہاں کورونا وائرس کی حقیقت سے لوگ باخبر رہ سکے؟ یا کورونا کی تباہ کاریاں خود اپنی انکھوں سے دیکھ سکے؟
گزشتہ دنوں میں کسی دوست ڈاکٹر کے ساتھ شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقے سیدگئ جانے کا اتفاق ہوا، ہم نے فیس ماسک لگائے تھے، اور وہاں جب ایک سے دوسری جگہ پیدل جانا پڑا، وہاں پہاڑی کے دامن میں کھیلتے ہوئے بچوں نے دیکھتے ہی دو تین بچوں نے ہاتھوں سے اپنے منہ چھپائے اور ساتھ ساتھ یہ نعرے بھی لگائے کہ بھاگوں بچو کروونا وائرس والے پہنچ گئے ہیں، ان بچوں نے ہاتھوں سے منہ کو ڈھانپ لئے تاکہ ایسا نہ ہو کہ ہم کو ہاتھ لگائے، پھر ہم کو بھی لگ جائیگی اسی وجہ سے وہ ہم سے دور بھاگ کر چلے گئے۔ لیکن پھر بھی اگر وہاں جہاں نہ ٹی وی کا نام ہے کہیں، نہ بجلی اور انٹرنیٹ کے نام سے ہے ناواقف، بچوں کو بھی علم ہے کہ کورونا وائرس خطرناک بیماری ہے، تو باقی لوگوں کو بھی ضرور پتہ ہے؟ تاہم دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو مریض کے ساتھ گھر میں جو احتیاطی تدابیر اپنانے چاہئے اسکا شدید فقدان ہے، ریڈیو ہی اس علاقے میں واحد مسائل کا حل ہے، اگر یہاں کے شہریوں کیلئے یہاں کے مقامی زبان میں کورونا پر خصوصی فیچر کے مکالمے شروع کیا جائے؟ خصوصی پروگرام نشر کیا جائے، وزیرستان ہی کہ مقامی اساتذہ مساجد کے خطیب سے کام لیا جائے، مقامی صحافیوں اسکولز کے اساتذہ کو استعمال کیا جائے، تو نہ صرف کورونا وائرس کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا خاتمہ ہوسکتا ہے، بلکہ ان سادہ لوح شہریوں کو موت کے منہ سے نکالے جاسکتے ہیں،

یہ بھی وزیرستان ہے : جووقتکیگردوغبارمیںدفنہوچکاہے۔تحریر : احسانداوڑ

سب سے ذیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ خوف کے مارے اب یہاں کے لوگ ہسپتالوں میں بھی نہیں جانا چاہتے، زہریلے اور کورونا وائرس کے خلاف پروپیگنڈے کا حال یہ ہے، کہ یہاں کے لوگوں کا خیال ہے؟ کہ ہسپتال پہنچتے ہی ڈاکٹرز انہیں زہر یلے ٹیکے لگاکر ماردیتے ہیں،

پاکستان کے ان پسماندہ ترین علاقوں کے 95 فیصد لوگ ریڈیو کے زریعے ہی خبر اور معلومات تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں، البتہ چند ایک نے سولر سسٹم کے زریعے سٹیلائٹ ٹی وی تک بھی رسائی حاصل ک ہے، جس کی تعداد بہت کم ہے، تاہم ریڈیو سننا ان پسماندہ علاقوں میں عام ہیں، ریڈیو کے نشریات ہی ان علاقوں میں اہم کردار آدا کرسکتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 75 فیصد لوگ کروونا کے بارے میں معلومات ریڈیو کے زریعے حاصل کرچکے ہیں۔ اب بھی ریڈیو ہی کے ذریعے سے ہم یہاں اگاہی بھی پھیلاسکتے ہیں، اور کورونا سے ان کو بچا بھی سکتے ہیں۔

اتنے لبے تحریر کا مقصد صاف واضح ہے، کہ ان لوگوں کی فکر کی جائے، اب بھی وقت ہے، کہ یہاں ان علاقوں میں کورونا وائرس اور ان کی پھیلاؤ کے سلسلے میں اگہی مہم اپنایاجائے، بصورت دیگر کورونا سے مقابلے کی بات نہ کی جائے، جب تک یہاں ہیں، تو کورونا پورے ملک اور دنیا میں رہیگی۔ یہاں ان لوگوں میں آگہی اور شعور نہ دیا ؟ تو اللہ ہی حافظ و ناصر ہو، اور پھر مستقل تباہی تک کورونا کے ساتھ ہی جینا ہوگا۔۔۔
پھر ہم دعا ہی دے سکتے ہیں، مقابلے کی بات نہ کی جائے تو بہتر رہیگا۔ اس سخت جملے
کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ہمیں شعور دیں، اور اس وبا سے نجات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بھی پڑھئے ۔۔۔ ابکوروناکےساتھرہناہے،مگراحتیاطاورحفاظتیتدابیرکیساتھعمرانٹکر

اپنا تبصرہ بھیجیں