28 مئی شہدائے ٹکر ۔ خصوصی تحریر: عمران ٹکر

28مئی کو یوم شہدائے ٹکر کے طورپر ہرسال ٹکر کے باشندے مناتے رہے ہیں ۔ یہ روز سیاہ نہ صرف ٹکر (تحصیل تخت بھائ ،ضلع مردان ) کے باشندے بلکہ ان کے خیرخواہ جہاں کہیں بھی ہو، غم واندوہ کی یادوں کے ساتھ مناتے ہیں اور 28مئی 1930ءء کو انگریزوں کے ہاتھوں شہید شدہ نہتے شہریوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ مقامی مورخین اور علاقے کے عمر رسیدہ بزرگوں کے مطابق 23 اپریل 1930ءء کو قصہ خوانی بازار میں ایک خون آشام واقعہ پیش آیاتھا ، جس میں برطانوی محافظ دستوں کے ہاتھوں احتجاجی جلوس میں شامل100 کے لگ بھگ افراد جام شہادت نوش کرچکے تھے ۔ بزرگوں کی بیانات کے مطابق ”برطانوی نو آباد کار (سامراج ) خدائی خدمتگار (سرخ پوش) تحریک کی بڑھتی ہوئی زور اور تحریک آزادی کے ولولے سے خوفزدہ تھا ۔پشاور اور اتمانزئی کے بعد ٹکر اس تحریک کا گڑھ تھا ۔ انگریزانتظامیہ اس تحریک کو کچلنے کی غرض سے اس کے قائدین کو مسلسل زیر حراست لارہاتھا ۔ 26مئی 1930ءء کو برطانوی پولیس کا مقامی افسر اعلیٰ مسٹرمرفی ، پولیس کی لاتعداد نفری کے ہمراہ نازل ہوا۔ ان کی غرض وغایت لوگوں کو حراست بے جا میں لیناتھا۔“
”مرفی کے آنے کا مقصد سرکردہ زعما ، مثلاََ ملک معصم خان (والد محترم دلبر خان ٹکر) ، سالارشمر وز خان ، ملک خان بادشاہ ، پیر صاحبزادہ اور ملک حمید آف فضل آباد کو حراست میں لیکر قید خانے میں ڈالنا تھا ۔ ان زعما ء کو حکم ملا کہ وہ اپنے آپ کو حوالہ کرکے تسلیم ہوجائے ۔ اس موقع پر ملک معصم اور پولیس کے درمیان سخت کلامی تک نوبت پہنچنی اور ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگیں ۔ گاؤں کے بزرگوں نے آخر کار اس فیصلے کو مان لیا کہ اگلے روز مردان میں وہ اپنے آپ کو انگریز سامراج کو ازخود حوالہ کرینگے ۔
اسی طرح اگلے روز پانچوں قائدین ایک جلوس کی شکل میں مردان کی طرف روانہ ہوگئے ۔ برطانوی فوج کو یہ بات راس نہ آئی کہ یہ پانچوں زعماء جلوس کی شکل میں مردان پہنچ جائے ۔ اس لئے مردان پہنچنے سے قبل ہی ان کو حکم دیاگیا کہ فوراََ تسلیم ہوجائے اور اپنے آپ کو حوالہ سرکارکریں ۔ اس سے جذبات بر انگیختہ ہوگئیں اور تصادم پیدا ہوا۔ گھوڑے پر سوار ، مرفی جلوس کے اندر داخل ہونے لگا۔ اور جلوس پر تشدد شروع کیا۔ جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ گولیاں بھی چلیں۔
کہا جاتا ھے کہ جلوس اس دوران گوجرگڑھی کے مقام پر پڑاو کر رھا تھا کیونکہ سخت گرمی بھی تھی اور یہ جلوس پیدل چل کر گوجر گڑھی پہنچا تھا اور وہاں کے مقامی لوگ سادہ پانی پلانے سے انکی تواضع کررھے تھے۔ جبکہ عین اس وقت مرفی اپنے دستے کے ساتھ جلوس کے پڑاو پر پہنچا تو اس نے جلوس کے شرکاء پر لاتھوں سے تشدد شروع کیا جبکہ اس دوران خدائ خدمتگاروں کو مٹکے سے پانی پلانے والی مقامی خاتون “سواتے ابے” نے مرفی کے سر پر پانی سے بھرا مٹکا اتنے زور سے مارا کہ وہ زمین پر گر کر ھلاک ھوگیا۔

یہ بھی پڑھئے: اب کورونا کے ساتھ رہنا ہے،مگر احتیاط اور حفاظتی تدابیر کیساتھ عمران ٹکر

کچھ بزرگوں کا کہنا ھے کہ مرفی گھوڑے پر سوار اشتعال انگیزی پر اتر آیا تو خدائ خدمتگار پہلوان ماما آف ڈنڈاو کلی نے اسکو پستول سے گولی ماری جس سے وہ گھوڑے سے گر کر مقامی خواتین نے اسکو پانی کے مٹکے مار کر ھلاک کردیا۔
اس کے برعکس ، ملک معصم خان ، سالار شمروز خان اور دوسرے لوگوں سے اس وقت کے بزرگوں نے سنا ھے کہ مرفی کو دو بھائیوں آمین اور سید آمین نے قتل کیاتھا ۔ جبکہ انتقام سے سرشار برطانوی فوجیوں نے 28مئی کو ٹکر گاوں کا محاسرہ کیا اور پھر لوگوں نے اپنی نوعیت کی بدترین درندگی اور انسان سوز ظلم وبربریت کا مظاہرہ دیکھا۔ اس افسوسناک واقعے کی یاد میں لوکوں نے گانے تخلیق کئے اور وہ مشہور گانا تو زبان زد خاص وعام ہے۔”پہ ٹکر جنگ دے گولے وریگی “ اور یہ گانا اُس روز برطانوی تشدد کی پوری تصویر کشی کرتی ہے ۔ اُس روز ٹکر کے ہرگوشے میں ظلم وبربریت جاری تھا ۔

یہ بھی پڑھئے:  کرونا وبا اور ھمارے بچے تحریر : عمران ٹکر

خواتین اور بچوں کو مارا پیٹا گیا اور یہاں تک کہ اُن کی عصمت دری سے بھی دریغ نہیں کیاگیا۔
ایک معمر شخص پولیس کے گھیرے سے نکلنے میں کامیاب ہوا اور ایک قریبی گاؤں میں جاکر لوگوں کو اس خونی واقعے کی اطلاع دی ۔ برطانوی فوجیوں نے ہر سمت میں گولیاں چلائیں ۔ یہاں تک کہ درختوں کوبھی ہدف بنایا، تاکہ کوئی شخص ٹکر والوں کی مدد کیلئے پہنچ نہ جائے ۔ بزرگوں کے بقول ،ویتکی ، ساڑوشاہ اور ٹمبلکو نامی قریبی دیہات سے لوگ ٹکر کے محاصرہ شدہ لوگوں کی مدد کیلئے پہنچ گئے ۔ کثیر تعداد میں لوگ شہید اور زخمی ہوگئے اور علاقے کے سرکردہ خدائی خدمتگار ملک معصم کا حجرہ جلاکر خاکستر کردیاگیا ۔

ایک مشہور کتاب ”دخپلواکی تڑون “ جو افغانستان میں چھاپی گئی تھی کے مطابق اس معرکے میں 70 لوگ شہید ،جبکہ 150سخت زخمی ہوچکے تھے جو اس وقت کے حساب ایک بڑی تعداد سمجھا جاتا ھے ۔ ان میں بعض شہداء کے اسمائے گرامی جمعہ سید ، صنوبر کاکا، سید بلند کاکا اور زڑہ ور خان بتائے جاتے ہیں۔ ان مقتولین میں سے ہر ایک کے نام کیساتھ شہید کا لاحقہ ایک جزو لاینکف کے طورپر لگایاگیا کیونکہ ٹکر اور قریبی گاؤں کے یہ بہادر لوگ حقیقی معنوں میں رتبہ شہادت پر پہنچ چکے تھے ۔ کیونکہ وہ برطانوی سامراج اور اس کے فوجیوں اور سپاہیوں سے لڑے تھے تاکہ غیر منقسم ہندوستان کے لوگوں کو راہ آزادی دکھائے۔


مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

28 مئی شہدائے ٹکر ۔ خصوصی تحریر: عمران ٹکر” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں