3 بڑوں کا اجلاس :: دال میں کچھ تو ہے؟ یا صرف کالا؟ خصوصی تجزیہ: یاسر حسین

 

 

دال میں کچھ کالا ہے ؟؟؟
ملک کی صورتحال جہاں کورونا وائرس کے باعث شدید متاثر ہے وہیں سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے ، ادھر اپوزیشن جماعتیں جہاں حکومت کے خلاف کمر بستہ ہیں وہیں حکومتی اہم ارکان بھی اپوزیشن کے خلاف بیانات دینے میں پیش پیش ہیں ، جو یقینا وزیر اعظم عمران خان کے لئے مشکلات کا سبب بھی بنتے جا رہے ہیں ، ادھر سپریم کورٹ آف پاکستان نے جہاں عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر سوال اٹھائے وہیں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ارکان کو عدالت کی جانب سے ہر قسم کے سوال کا فوری تحریری جواب دینے کی بھی ہدایت کی ہے ، تاکہ کوئی نیا محاذ نہ کھل جائے ، وفاق کی جانب سے کورونا وائرس سے نمٹنے میں سندھ حکومت کی کارکردگی کو صفر قرار دیا گیا لیکن سندھ حکومت وفاقی حکومت کے الزامات کی پرواہ کئے بغیر عوام کو ریلیف دینے کے لیے کام کر رہی ہے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کو کیوں ایسا لگتا ہے کہ سندھ حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہے ، کیا اسے یہی صورتحال پنجاب یا خیبر پختونخوا میں دکھائی نہیں دیتی ، حالانکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی غریب اور متوسط طبقہ حکومتی اقدامات پر نوحہ کناں ہے لیکن اسے سیاست کی نذر نہیں کیا جا رہا ، کیونکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جس کا یہ موقف ہے کہ اس کے اقدامات کے خلاف وفاقی حکومت باقاعدہ مہم چلا رہی ہے ، اس ساری صورتحال میں ہمارے ملک کا اہم ترین ادارہ صرف اور صرف عوام کو ریلیف دینے کے لئے سرحدوں کے ساتھ ساتھ اب شہری علاقوں میں بھی پیش پیش ہے ، کورونا وائرس سے بچاؤ سے لے کر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی مہم میں بھی ہمارا اہم ادارہ کام کر رہا ہے ، ہماری وفاقی و صوبائی حکومتیں سرکاری ٹی وی پر اپنی سب اچھا کی رپورٹوں میں مگن ہیں ، لیکن اس ساری صورتحال کو باریک بینی سے مانیٹر کیا جا رہا ہے ، چینی بحران پر ایف آئی اے کی رپورٹ نے بھی بھونچال کھڑا کر رکھا ہے ، اب 25 اپریل کو فیصلہ آنا باقی ہے ، لیکن اس دوران وزیر اعظم عمران خان کی ایوان صدر آمد اور صدر مملکت جناب عارف علوی سے اچانک ملاقات اور پھر کراچی ، لاہور اور پشاور کے گورنرز سے الگ الگ ملاقاتیں,, کئی سوالات کو جنم دے رہی ہیں ، کہیں کچھ ہونے تو نہیں جا رہا ؟؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج بھی وزیر اعظم عمران خان کے چاہنے والوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی ، لیکن عوام نے جو توقعات وزیر اعظم عمران خان سے وابستہ کر رکھی تھیں انہیں ضرور ٹھیس پہنچی ہے ، ہمارے ایک بڑے خاص دوست کہتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان وفاقی کابینہ میں بیتھے کن کن پیاروں کا منہ بند کرے ، کیونکہ منہ کوئی اور کھولتا ہے اور بھگتنا کپتان صاحب کو پڑتا ہے ، اناب شناب بولنے سے نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے ، سیاسی دوستوں کا کہنا ہے کہ کپتان کی ٹیم نے اتنے مسئلے مسائل کھڑے کر رکھے ہیں کہ انہیں سنبھالا نہیں جا رہا ، ہاں یہ ضرور ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے بڑے بڑوں پر پردے پڑے ہیں ، ورنہ ایف آئی اے کی رپورٹ نے تو بہت سوں کو ننگا کر دینا تھا ، اب خان صاحب کی اچانک صدر مملکت جناب عارف علوی سے طویل ملاقات اور اس کے بعد گورنروں سے ملاقاتیں,, کئی سوالات کو جنم دے رہی ہیں، سیاسی دوست یہی کہتے ہیں کہ خان صاحب عوام سے کئے وعدے ایفاء کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں قربانیوں کا سلسلہ تو ویسے بھی جاری ہے ، سینے سے لگنے والے اب کسی بھی وقت چھرا گھونپ سکتے ہیں ، تو ان سب سے بچنے کے لئے خان صاحب کا اگلا قدم کیا ہو گا یقینا یہ سوالیہ نشان ہے ۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے جہاں وزیر اعظم عمران خان کے چہرے پر تکلیف اور درد عیاں ہے وہیں ان کی گھبراہٹ اور اپنوں کی مسلسل دوری نے بھی انہیں پریشان کر رکھا ہے ، ہاں اگر آج ان کے پرانے اور سکھ دکھ کے ساتھی مرحوم نعیم الحق صاحب ہوتے تو شاید ،،، صورتحال یہ نہ ہوتی ، کیونکہ اہم فیصلوں میں مرحوم نعیم الحق کی مشاورت سے ہی خان صاحب اگلا اٹھاتے تھے ، لیکن آج ان کی کمی جہاں خان صاحب شدت سے محسوس کر رہے ہیں وہیں مرحوم کی خالی جگہ ابھی تک کوئی پر نہیں کر سکا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں