خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار تمام بڑی سیاسی جماعتیں، قبائلی عمائدین، علما اور سول سوسائٹی ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوئیں۔ اس امن جرگے کو صوبے میں پائیدار امن کی نئی امید سمجھا جا رہا ہے، تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ اصل امتحان اس کے دس نکاتی اعلامئے پر عمل درآمد ہوگا۔
اعلامئے میں سول اداروں کی بالادستی اور پولیس و سی ٹی ڈی کو مرکزی کردار دینے پر زور دیا گیا۔ اس میں دہشتگردی کی سخت مذمت، اسمبلی کو اعتماد میں لینے، امن سے متعلق قراردادوں پر عمل، پولیس و سی ٹی ڈی کو ضروری سہولیات اور بھتہ خوری، غیر قانونی محصولات و کان کنی کی روک تھام سمیت چیک پوسٹس کے خاتمے کے لئے مشترکہ سیل بنانے اور وفاقی بقایا جات کی فوری ادائیگی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے تمام فریقین کو اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اجتماعی فیصلے ہی دیرپا امن کی ضمانت ہیں۔ “جب بم پھٹتا ہے تو وہ کسی جماعت کا نہیں دیکھتا، امن ہم سب کی سانجھی ضرورت ہے۔”
محسن داوڑ نے کہا کہ جو افغان طالبان کی فتح پر جشن مناتے تھے، آج خود اس کے اثرات کا سامنا کر رہے ہیں اور اب خیبر پختونخوا کو بدامنی کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ آفتاب شیرپاؤ نے تجویز دی کہ نیشنل ایکشن پلان کی طرز پر صوبائی سطح پر ایک پلان ترتیب دیا جائے۔
پی ٹی آئی کی صوبائہ صدر جنید اکبر نے کہا کہ طالبان کو واپس لانے کا فیصلہ سیاستدانوں نے نہیں، بلکہ عسکری قیادت نے کیا۔ “افغانستان نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا، اور یہ دہشت گردی کسی نہ کسی بیرونی ہاتھ کا شاخسانہ ہے۔”
اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ نے واضح پیغام دیا، کہ “دہشت گردوں سے کوئی مفاہمت نہ ہو۔ جنہوں نے ہمارے بچوں کو قتل کیا، ان کے لئے کوئی معافی نہیں۔”
وزیراعلیٰ نے این ایف سی حصے میں کٹوتی اور فنڈز نہ ملنے پر شکوہ کیا، اور کہا کہ پالیسی سازی سب کے مشورے سے ہو، تاکہ فیصلے عوامی ملکیت بن سکیں۔
سیاسی ماہرین کے نزدیک امن جرگہ ایک علامتی پیش رفت ضرور ہے، مگر اس کی پائیداری اسی وقت ممکن ہے جب عمل درآمد سنجیدگی سے ہو۔
اگر حکومت، اپوزیشن اور سیکیورٹی ادارے مربوط حکمت عملی اختیار کریں تو یہی جرگہ صوبے کے امن اور خودمختار سیکیورٹی پالیسی کی بنیاد بن سکتا ہے۔
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ صوبائی اسمبلی میں سیاستدان، عمائدین اور دانشوروں کو اکٹھا کرنا بروقت اور حوصلہ افزا قدم ہے۔ اب سابقہ تنازعات کو بند کر کے آگے دیکھنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ مثبت کردار کے لئے سب کا کردار نمایاں ہوگا۔ سیاستدانوں، میڈیا اور مقامی رہنماؤں کی یکجائی بڑی پیش رفت ہے۔ افغانستان سے آنے والا امریکی اسلحہ آج بھی صوبے میں چل رہا ہے، جس سے نمٹنا بڑا چیلنج ہے۔
اپنے حقوق کے لئے دلیل اور مکالمے سے اسلام آباد میں بات کرنا ضروری ہے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن صوبائی حکومت، وفاق اور فوج کو ایک پیج پر آنا ہوگا، تب ہی یہ فورم صوبے میں امن اور ترقی کے لئے مستقل کردار ادا کر سکتا ہے۔
اب بند کمروں کے فیصلے نہیں، کھلی بحث اور اجتماعی سوچ سے صوبہ اپنے حقوق بھی حاصل کرے گا اور استحکام کی طرف بڑھے گا۔




