پختونخوا میں حکومتی ترجیحات اور انتظامی بحران

خیبر پختونخوا اس وقت ایک سنگین انتظامی بحران کی لپیٹ میں ہے، جہاں صوبائی مینجمنٹ سروس (پی ایم ایس) افسران کی ہڑتال اور احتجاج نے گزشتہ پانچ دنوں سے سول سیکرٹریٹ کو مکمل طور پر مفلوج کر رکھا ہے۔ اس صورت حال پر صوبے کے عوام اور سیاسی مبصرین شدید تشویش کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ اور کابینہ کی خاموشی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
یہ ہڑتال اس وقت شروع ہوئی جب وزیراعلیٰ کے ایک معاون نیک محمد اور سیکرٹری تعلیم کے درمیان جھگڑا ہوا۔ اس تنازع کے بعد پی ایم ایس ایسوسی ایشن نے بطور احتجاج ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ نتیجتاً صوبے کے بیشتر سرکاری دفاتر اور انتظامی امور بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ عوامی مسائل کے حل اور روزمرہ سرکاری امور ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں، مگر اب تک نہ تو وزیراعلیٰ اور نہ ہی کسی متعلقہ وزیر نے اس بحران کو حل کرنے کی کوئی عملی کوشش کی ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ اسلام آباد میں مصروف ہیں اور صوبے میں جاری اس بحران سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب وزیر تعلیم فیصل ترکئی، جن کے محکمے سے یہ تنازع شروع ہوا، بھی منظر عام سے غائب ہیں۔ اس صورتحال نے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ آیا موجودہ حکومت کی ترجیحات صوبے کے عوامی مسائل ہیں یا محض پارٹی کے اندرونی معاملات۔
انتظامی بحران کی ایک بڑی وجہ کابینہ اراکین اور سیکرٹریز کے درمیان ہم آہنگی کی شدید کمی ہے۔ اکثر وزراء کا کہنا ہے کہ سیکرٹریز ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے اور ان کی ہدایات پر عمل درآمد میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ اس کشمکش نے واضح کر دیا ہے کہ صوبے کی بیوروکریسی اور منتخب نمائندوں کے درمیان اعتماد کا فقدان موجود ہے، جو حکومتی مشینری کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ کابینہ میں کئی ایسے افراد شامل ہیں جنہیں حکومتی امور چلانے کا تجربہ نہیں۔ بعض اراکین پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ پارٹی فنڈز میں بھاری چندہ دے کر عہدوں تک پہنچے ہیں۔ مبصرین کے مطابق یہ صورتحال حکومت کی ساکھ اور سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے۔
نیک محمد کی مثال سب کے سامنے ہے، جنہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ عرب امارات میں گزارا اور مختلف کمپنیوں سے سرمایہ کما کر وزیرستان واپس آئے۔ مقامی سیاست میں پیسہ خرچ کر کے پہلے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور اب مزید مالی اثرورسوخ کے ذریعے وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی تعینات ہوئے۔ مبصرین کے مطابق نیک محمد جیسے کئی دیگر افراد کابینہ کا حصہ بن چکے ہیں، جس سے حکومت کی سنجیدگی اور گورننس پر سوالات اٹھنا فطری ہیں۔
خیبر پختونخوا اس وقت نہ صرف انتظامی بحران کا شکار ہے بلکہ حکومتی ترجیحات پر بھی شدید سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ عوامی مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں اور سیاسی و ذاتی مفادات کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ اگر حکومت نے جلد از جلد اس بحران پر قابو نہ پایا اور بیوروکریسی و وزراء کے درمیان اعتماد کی فضا بحال نہ کی، تو یہ صورتحال صوبے کے گورننس سسٹم کے لیے سنگین خطرات پیدا کر سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں