سوات میں سیلابی ریلا، 18 سیاح بہہ گئے — المیہ، غفلت یا جرم؟

سوات واقعہ ، سانحہ نہیں، قتل کا واقعہ ہے، ایمل ولی خان

پشاور ( دی خیبر ٹائمز مانیٹرنگ ڈیسک ) سوات __ ایک اور انسانی المیہ، ایک اور سانحہ، اور ایک بار پھر وہی ریاستی غفلت۔ آج 27 جون کی صبح، سیالکوٹ اور مردان سے سیر و تفریح کے لیے آئے 18 سیاح سوات کے مقام فضاگٹ بائی پاس پر دریائے سوات کے قریب بیٹھے تھے۔ سورج نکلا ہی تھا، موسم خوشگوار تھا، لیکن قدرت نے غضب ڈھایا اور دریا کی سطح میں اچانک طغیانی آ گئی۔ سیاح چند لمحوں میں دریا کے بیچ پھنس گئے — اور ریسکیو ٹیموں کے پہنچنے سے پہلے، دریا انہیں نگل چکا تھا۔

ریسکیو 1122 کے مطابق 18 افراد میں سے 3 کو زندہ نکال لیا گیا، 9 کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں، جبکہ 6 لاپتہ افراد کی تلاش تاحال جاری ہے۔ اس واقعے نے نہ صرف سوات بلکہ پورے خیبر پختونخوا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

دفعہ 144 بھی نافذ تھی، پھر یہ سب کیسے ہوا؟

یہ وہ سوال ہے جو اج ہر زبان پر زد عام ہے۔ کمشنر ملاکنڈ عابد وزیر کے مطابق پی ڈی ایم اے کی ہدایت پر سوات بھر میں ہائی الرٹ جاری تھا، دفعہ 144 کے تحت دریا کے کنارے بیٹھنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اگر یہ سب تھا تو؟؟؟

سیاح دریا کنارے کیسے پہنچے؟

مقامی انتظامیہ نے موقع پر روک تھام کیوں نہ کی؟

ریسکیو ادارے فوری ردعمل کیوں نہ دے سکے؟

عوامی سطح پر یہ سوال اب ایک مطالبہ بن چکا ہے: ذمہ داروں کا تعین صرف معطلی سے نہیں، مکمل احتساب سے ہوگا۔

کارروائیاں: وقتی دباؤ یا پائیدار اصلاح؟

واقعے کے بعد خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی کی ہدایات پر کئی افسران کو معطل کیا:

اسسٹنٹ کمشنر بابوزئی

اسسٹنٹ کمشنر خوازہ خیلہ

ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریلیف

ریسکیو 1122 کا ضلعی انچارج

وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی بیرسٹر ڈاکٹر سیف کے مطابق وزیر اعلیٰ نے فوری طور پر انکوائری کا حکم دے دیا ہے اور مزید کارروائیاں بھی متوقع ہیں۔

لیکن سوال یہی ہے کیا معطلیاں کافی ہیں؟
کیا یہ صرف دباؤ کم کرنے کی تدبیر ہے یا اصلاح کی شروعات؟

ماحولیاتی المیہ: دریا صرف پانی نہیں، انتقام بھی لیتا ہے

ماحولیاتی ماہر محمد حافظ کا کہنا ہے کہ:

“سوات میں گلوبل وارمنگ کے اثرات نمایاں ہیں، مگر حکومت کی سطح پر کوئی سنجیدہ اقدامات نظر نہیں آتے۔ دریا کے قدرتی راستے کرش مافیا اور قبضہ گروپوں نے بند کر دیے ہیں، جو سیلابی تباہی کا راستہ بن رہے ہیں۔”

یہ صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ برسوں کی ماحولیاتی غفلت اور بے رحم انسانی مداخلت کا نتیجہ ہے۔

سیاسی بیانیہ: لفظی افسوس یا عملی قدم؟

صوبائی وزیر فضل حکیم اور سینیٹر ایمل ولی خان کے بیانات میں تضاد ضرور ہے، لیکن ایک بات پر سب کا اتفاق ہے: یہ حادثہ نہیں، حکومتی ناکامی ہے۔

سینیٹر ایمل ولی خان نے تو یہاں تک کہا:

یہ حادثہ نہیں، قتل ہے — اگر پہلے سے الرٹ موجود تھا اور کوئی اقدام نہیں کیا گیا تو یہ قتل با ارادہ ہے۔”

سانحات کو صرف رویا نہ جائے، روکا بھی جائے

دی خیبر ٹائمز کا ادارتی مؤقف یہی ہے کہ:

سوات جیسے حساس علاقوں میں سیاحتی انتظامات اور ماحولیاتی تحفظ کو یکجا کرنا ناگزیر ہے۔

مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری صرف نوٹس جاری کرنا نہیں، عمل درآمد یقینی بنانا ہے۔

ریسکیو نظام کو صرف ایمرجنسی کا نہیں، پیشگی خطرات کا نگران بنانا ہوگا۔

اب اگر نہ جاگے، تو تاریخ ہمیں نہیں بخشے گی

سوات کے پہاڑ خاموش ہیں، مگر دریا بول پڑا ہے۔ اس بار وہ پانی نہیں، احتجاج لے کر آیا تھا — ایک ایسا احتجاج جو بے گناہوں کی لاشوں پر بہہ گیا۔

یہ واقعہ ایک المناک یاد دہانی ہے کہ قدرت کو شکست دینا ممکن نہیں، لیکن قدرت کی توہین کر کے تباہی کو دعوت دینا ضرور ممکن ہے — اور یہی ہم کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں