کشمیری اور استور مارخور کا مسکن کیئگاہ، اپرکوہستان ایسا علاقہ ہے ہے جہاں انسان تو کیا جانوروں کو بھی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ کمیلہ شہر سے بیس کلومیٹر شمال کی جانب ایک چھوٹا سا گاوں ہے جسے کیئگاہ کہتے ہیں۔ اس گاؤں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں وافر مقدار میں مارخور پائے جاتے ہیں کئیگاہ کےچپہاڑوں پر قلاںچے بھرتے مارخور جن کی حفاظت مقامی لوگ کرتے ہیں، کیونکہ اہل علاقہ نے ایک کمیونٹی قائم کی ہے جو صرف مارخور کی حفاظت کرتی ہے۔ کیئگاہ کنزرویشن کمیونٹی کے صدر ملک فلقوز نے 1990 میں کمیونٹی قائم کی جس کے تحت مارخور کو تحفظ فراہم کرنے کا بیڑہ اٹھایا گیا جہاں آہستہ آہستہ مارخور کی افزائش بھی ہوئی اور شکار پر بھی پابندی لگ گئی 2005 میں کئگاہ میں پہلی ٹرافی ہنٹنگ ہوئی اس کے بعد سے لیکر اب تک ہر سال ایک ٹرافی ہنٹنگ ہوتی ہے یعنی سال میں صرف ایک مارخور کا قانونی شکار ہوتا ہے باقی تمام محفوظ ہیں۔ ایک ٹرافی ہنٹنگ کیلئے غیر ملکی شکاری ڈیڑھ سے تین کروڑ روپے آدا کرتے ہیں جس کا بیس فیصد حکومت باقی تمام رقم مقامی کمیونٹی کو دی جاتی ہے۔ آج کئیگاہ میں تقریبا 700 سے زائد ماخور پائے جاتے ہیں۔ کئیگاہ وادی کا جغرافیاء ہی یہاں کے مارخورکیلئے تحفظ کا ضامن ہے۔ کیونکہ یہاں داخل ہونے اور خارج ہونے کے صرف دو ہی راستے ہیں باقی صرف کھائیاں ہیں جہاں سے غیر قانونی شکار کرنے والوں کا داخلہ ممکن نہیں۔
کیئگاہ کنزرویشن ایریا میں بیس نگہبان دن رات مارخور کے پہرے پر مامور ہوتے ہیں۔ کئیگاہ کنزرویشن کمیونٹی کے صدر ملک فلقوز کہتے ہیں کہ جب میں نے کمیونٹی قائم کی لوگ میرا مذاق اڑانے لگے لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری کمینوٹی رجسٹرڈ ہونے کے بعد مختلف این جی اوز اور محکمہ وائلڈ لائف سے فنڈز لئے اور کروڑوں کی لاگت سے کنزرویشن ایریا میں راستے بنائے تاکہ شکاریوں کو آسانی سے شکار گاہ تک لے جایا جا سکے، اسی کمیونٹی کے تحت منی ہائیڈل پاورز لگائے جس سے علاقے کو بجلی مُیسر ہے اور ایک شاندار سکول بھی بنوایا، 2010 تک اس علاقے میں اچھے راستے نہیں تھے شکاریوں کو کھائیوں سے رسیوں میں باندھ کر لیجانا پڑتا تھا لیکن اب کوئی مسلہ نہیں ہے۔ ملک فلقوز کہتے ہیں کہ ہم نے جب سے مارخور کے شکار پر پابندی لگائی اور پہرہ دینے لگے بڑی تکالیف اٹھائی ہیں میرا ایک بیٹا مارخور کی حفاظت پر مامور تھا اور پہاڑی سے گِر کر جاں بحق ہوا لیکن میں نے اپنا مشن جاری رکھا۔ ملک فلقوز کے صاحبزادے اور مارخور نگہبان محمد اقبال کا کہنا ہے کہ میں اپنے ساتھیوں سمیت سال بھر دن رات مارخور کی نگرانی کرتا ہوں اب تو اتنی آشنائی ہوگئی ہے کہ مارخور کو شکل صورت سے پہچانتے بھی ہیں کہ فلاں مارخور ہے انکے سونے کا روٹین اور چرنے کا وقت سب ہمیں پتہ ہے کہ کب سوتے ہیں کب جاگتے ہیں اور کس وقت کہاں نقل و حرکت ہوتی ہے۔ یہاں کے مارخور ہمیں دیکھ کر بھاگتے بھی نہہیں لیکن علاقے میں کوئی نیا شخص داخل ہو فوری طور پر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ کئیگاہ کنزرویشن ایریا میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر مکمل پابندی عائد ہے، یہاں فائرنگ کرنا اور آگ جلانا یا شور مچانا بھی وائلڈلائف ایکٹ کے جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ سال میں صرف ایک شکاری آتا ہے جسکو محکمے کی جانب سے پرمٹ جاری ہوتا ہے، شکاری کا نشانہ چونک جائے تو مزید فائر کر سکتا ہے لیکن اگر مارخور زخمی ہوجائے تو کسی دوسرے پر فائر نہیں کرسکتا صرف زخمی مارخور تلاش کرکے اسی پر فائر کرنے کا پابند ہے۔
ٹرافی ہنٹنگ کے دوران محکمہ وائلڈ لائف کے حکام بھی موجود ہوتے ہیں۔ سب ڈویژنل آفیسر وائلڈ لائف کٹ باز کہتے ہیں کہ مقامی کمیونٹی کے علاوہ محکمے اہلکار بھی کیئگاہ کنزرویشن ایریا کا وزٹ کرتے ہیں اگر غیر قانونی شکار کرتے ہوئے کوئی پکڑا گیا تو پانچ سال قید یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں ہوسکتے ہیں۔ کئیگاہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کشمیری اور استور مارخور کے دونوں نسل ایک ساتھ پائے جاتے ہیں جو کہ باقی کنزرویشن ایریا سے بالکل مختلف بات ہے کیونکہ ہر جگہ یہ دونوں نسل کے مارخور الگ الگ پائے جاتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں صرف چترال اور کوہستان میں مارخور کی ٹرافی ہنٹنگ ہوتی لیکن کوہستان میں محکمہ وائلڈ لائف کے سٹاف کی بہت کمی ہے پورے سب ڈویژن میں چار اہلکار اور ایک سب ڈویژنل آفیسر ہے محکمے کے پاس کوئی سرکاری گاڑی بھی نہیں ہے۔ مارخور کے علاوہ ضلع بھر میں وائلڈ لائف کے قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ہمیں موقع پر جانے میں نہایت دشواری ہوتی ہے۔
کئیگاہ کنزرویشن کمیونٹی آراکین کا کہنا ہے کہ کوہستان سمیت خیبرپختونخوا میں مارخور کو تحفظ فراہم کرکے نہ صرف انکی افزائش میں اضافہ کیا جاسکتا ہے بلکہ ٹرافی ہنٹنگ کے ذرئعے اربوں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔
Load/Hide Comments