برف تو ہر کوئی دیکھتا ہے اور شہروں میں رہنے والے لوگ زیادہ تر برف یا تو سڑک کنارے فروخت ہونیوالی برف دیکھتے ہیں یا پھر فریج میں بننے والی برف ، لیکن پہاڑوں پر گرنے والی برف باری کا شوق ہر عمر میں ہر ایک شخص کو ہوتا ہے کیا بچے ، کیا جوان اور کیا میری طرح نیم بوڑھے ،نیم بوڑھے اس لئے کہہ رہا ہوں کہ حالات اور سوچ نے وقت سے کچھ پہلے ہی بوڑھا کردیا ، خیر ہمارے ساتھی دوست غنی الرحمان نے ایبٹ آباد میں منعقد ہونیوالے دوسرے یوتھ آرچری چیمپئن شپ کی کوریج کیلئے کہہ دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ ساتھ جائیں گے تو مزہ آئیگا – دل تو میرا بھی بہت تھا کہ چلو برف باری دیکھ لیں گے لیکن پروگرام نہیں بن رہا لیکن پھراللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ رکشے میں بیٹھ کر بھاگ کر آرچری چیمپئن شپ کیلئے جانیوالی ٹیم کے پیچھے دوڑے. یہ الگ بات کہ ہمارے ساتھی صحافی غنی الرحمان سب سے پہلے وہاں پہنچے تھے.
جس دن جانا تھا اس دن گیارہ بجے کا وقت دیا تھا لیکن یہ تو ہماری پاکستانیوں کی عادت ہے کہ اگر لیٹ نہ ہو تو پھر کیا ہی بات ہے سو گاڑی روانہ ہوئی تو تقریبا ڈیڑھ بجے تھے ، اس میں کچھ انتظامی امور کا بھی مسئلہ تھا جبکہ کٹس بھی تیار نہیں تھے جس نے تیار کرنے تھے اس نے عین وقت پر اگلے دن ایبٹ آباد پہنچانے کی ذمہ داری لے لی . اور پھر یوںماسک پہنے ہمارا ایبٹ آباد تک کا سفر شروع ہوا ، خیبر پختونخواہ آرچری کلب کے بیشتر تیر انداز جس میں نوجوان زیادہ تھے اس وجہ سے یوتھ ڈائریکٹریٹ نے اس سلسلے میں آرچری کلب سے تعاون بھی کیا تھا جبکہ ان میں ایک60 سالہ آرچر بھی تھا سابق فٹ بالر ہونے کی وجہ سے اب موصوف ہر چیز کو لات مارنے کی عادی ہیں یہ الگ بات کہ اپنے گھر میں وہ لاتیں کھاتے ہیں جس کا بدلہ وہ فیلڈ میں لیتے ہیں-
یہ تو شکر ہے کہ گاڑی چلانے والا ڈرائیور بہت زیادہ شریف اور خاموش تھا اس لئے باتیں سننے کا موقع نہیں ملا لیکن ایک عجیب بات جسے ہم سب نے زیادہ مخصوص کیا کہ گاڑی میں بیٹھے آرچری کلب کے تیر انداز اتنے تمیز سے بیٹھے ہوئے تھے کہ لگتا نہیں تھا کہ یہ کسی چیمپئن شپ میں حصہ لینے کیلئے جارہے ہیں نہ کوئی مستیاں نہ کوئی ہلڑ بازی ، البتہ سینئر بزرگ تیر انداز کبھی کبھار ہاتھ ہلا ہلا کر ڈانس کا مزہ لیتے تھے لیکن جیسے ہی موٹر وے سے اتر گئے اور ایبٹ آباد تک نزدیک ہوگئے تو پھر ان تیر انداز بچوں کے گاڑی میں ڈانس نے حیران و پریشان کردیا ، حیران اس بات پر کہ اب تک کیسے خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور پریشانی اس بات پر تھی کہ جب میں موبائل کیمرہ سے ریکارڈنگ کی کوشش کرتا تو پھر سارے اتنے تمیز سے بیٹھ جاتے لگتا نہیں تھا کہ یہ لوگ گاڑی میں ڈانس کررہے ہیں ، ایک دو تیر انداز زیادہ عمر کے تھے اور وہ اپنی عمر کے لحاظ سے گانے سننے کے خواہشمند تھے -کچھ قوالیوں پر سر دھننے کے عادی تھے .سفر چونکہ لیٹ شروع کیا تھا اس لئے ظہر کی نماز بھی رہ گئی تھی اور پھر ایک جگہ پر رک کر ہم دوستوں نے نماز پڑھ لی اور پھر کھانا کھا کر ایبٹ آباد شہر تک پہنچنے کا سلسلہ شروع ہوگیا-
ایبٹ آباد پہنچ کر پتہ چلا کہ سردی کس بلا کا نام ہے ، کمرے میں ایک تیر انداز اور صحافی دوست کی موجودگی میں زبردستی زمین پر میٹرس رکھ کر سونے کیلئے کتنا زور لگایا یہ ہم ہی جانتے ہیں کیونکہ آرچری کلب کی خاتون صدر اس بات کی حق میں نہیں تھی کہ کوئی زمین پر سوئے لیکن یہ ہماری مجبوری تھی کہ گذشتہ بیس سالوں سے زمین پر لیٹ لیٹ کر زمین سے اتنی الفت ہوگئی کہ اب زمین کے علاوہ نیند ہی نہیں آتی . لیکن الگ بات کہ پہلے رات ہمارے ساتھی غنی الرحمان کے خراٹوں اور ساتھی وجاہت کے خراٹوں کی وجہ سے ہمیں نیند نہیں آئی ، ظالم ایسے خراٹے مارتے تھے جیسے کوئی ڈیزل کا انجن سٹار ٹ کررہا ہو ، اورمیں میٹرس پر یہ لیٹ کر یہ شکر ادا کررہا تھا کہ شکر ہے کہ میں بیڈ پر نہیں سویا ورنہ . لیکن خیر یک نہ شد دو شد نے نیند خراب کردی-
دوسرے دن جس دن چیمپئن شپ شروع ہونا تھا اس دن ناشتہ کرکے چیمپئن شپ تو شرو ع ہوگئی لیکن ساتھ میں ہماری ڈیوٹی بھی شروع ہو ئی بارش میں تیر اندازی کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن سارے تیر اندازوں نے انفرادی مقابلے میں اچھی طر ح حصہ لیا ، دوسری یوتھ آرچری چیمپئن شپ کے اس کوریج کے موقع پر ہمیں پتہ چلا کہ تیرکتنے مہنگے ہیں اور پھر یہ آلہ جسے آرچری کے زبان میں بو کہا جاتا ہے کتنا قیمتی ہے دیکھنے میں سادہ سی چیز لیکن قیمت لاکھوں سے شروع ہو کر لاکھوں پر ختم ہوتی ہیں اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ آرچری کا بیشتر سامان مملکت خداداد میں تیار ہی نہیں ہوتا اسے باہر سے منگوانا پڑتا ہے -کوئی اپنی لاکھوں روپے کا سامان کس طرح کم عمر کھلاڑیوں کو تربیت کیلئے دیتا ہے جس میں خراب ہونے کا بھی خدشہ ہو ، لیکن یہ بات باعث تقلید ہے کہ آرچری کلب والوں نے کم عمر تیر اندازوں سے لیکر سینئر تیر اندازوں کو یکساں لیول پر رکھا ہے اور سب کو تیر اندازی کیلئے سامان ملتا ہے جو کہ عام کھلاڑی کے خریدنے کی بس کی بات نہیں ، جو کہ ایک اچھی کاوش ہے کیونکہ یہی تیر انداز کل کلاں صوبے کیلئے اور ملک کیلئے قیمتی اثاثہ ثابت ہوتے ہیں-
پہلا دن تو گزر گیا اور سردی کم تھی البتہ دوسرے دن کچھ مقابلے ایبٹ آباد میں اور کچھ ڈونگا گلی میں منعقد کروانے تھے ہم نے صبح صبح ایبٹ آباد میں شکر کیا کہ چلو سورج نکل آیا ہے لیکن سردی الامان الحفیظ ، اتنی سردی تو بارش میں نہیں تھی جتنی سورج والے دن تھی ، کچھ کوریج کرلی اور پھر روانگی ڈونگا گلی تک ہوئی راستے میں الیاسی مسجد دیکھنے کی خواہش تیر اندازوں کی دل ہی میں رہی کیونکہ اس وقت آرچری کلب کے جنرل سیکرٹری اور خاتون صدر تیر اندازوں کو کچھ ٹپس دے رہی تھی اور ساتھ میں جھاڑ بھی پلا رہی تھی کہ اپنے آپ کو امپرو کرو ، نتھیا گلی میں ” سور پیاز “سوری ریڈ اونین نامی ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا .اوپر سے کچھ جگہوں پر برف دیکھنے کو ملی لیکن نتھیا گلی کے بازار میں تیر اندازوں نے جس طرح ایک دوسرے پر برف کے گولے مار مار کر مستی کی وہ دیکھنے کی قابل تھی . ہم نے بھی برف اٹھا کر اپنے ساتھی صحافی غنی الرحمان کو مارنے کی کوشش کی لیکن وہ یہ کہہ کر ” یخنی دہ مہ کوہ” کہہ کر پیچھے ہٹ گئے .غنی الرحمان بھی ہماری طرح نیم بوڑھا ہو چکا ہے کچھ وقت کے تھپیڑوں نے اسے پہلے ہی خراب کیا اس لئے اس کی مستی بھی ختم ہوگئی ہے.
ڈونگا گلی میں تیر اندازی کے ٹیم ایونٹ کے کچھ مقابلے منعقد کروائے گئے ، وہ بھی برف پر ، سڑک کنارے ہونیوالے ان مقابلوں کو دیکھنے کیلئے لوگ خصوصا سیاح دیکھنے آتے تھے کہ یہ کونسے لوگ ہیں جو تیر اندازی کرنے کیلئے یہاں پر آئے ہوئے ہیں وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ شائد آرطغرل ڈرامے کی وجہ سے ان لوگوں کا شوق بڑھ گیا ہے پھر جب انہیں پتہ چلا کہ یہ پشاور سے آنیوالے ہیں تو سمجھ گئے کہ یہ پٹھان ہیں اور ان سے کسی بھی چیز کی توقع کی جاسکتی ہیں – کچھ لوگ دور دور سے دیکھتے رہے- ویسے ایک بات جو اس موقع پر محسوس ہوئی کہ برف باری میں تیر کو کھینچنا کتنا مشکل کام ہے یہ الگ بحث ہے لیکن ٹیم ایونٹ میں مارخور کی ٹیم نے پہلی پوزیشن حاصل کرکے یہ ثابت کیا کہ “واقعی مارخور” ہی نمبر ون ہے.خواہ وہ کسی بھی فیلڈ میں ہوں.
مقابلوں کے اختتام کے ساتھ ہی واپسی کا سفر شروع ہوا لیکن دو دن کے سفر میں اتنا کچھ جاننے کا موقع ملا جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا -ہوٹلوں میں تازہ چائے پینے کیلئے ایک نئی ٹپ سننے کو ملی جو کہ خاتون صدر آرچری کلب نے بتائی کہ جب بھی کسی ہوٹل میں چائے پینے کیلئے بیٹھ جائو تو بتا دیا کرو کہ پھیکی چائے لے آئو ، اس طرح تازہ چائے پینے کو ملتی ہیں کیونکہ ہوٹل والے پرانی پلاتے ہیں ، یہ ہمارے علم میں اضافے کا باعث بنی ، یہ الگ بات کہ صحافی دوست غنی الرحمان کی ایک کمزوری کا ہمیں پتہ چلا کہ وہ چائے پینے کے انتہائی حد تک شوقین ہے ، تقریبا تئیس سال کے دوستی کے سفر میں کبھی پتہ نہیں چلا کہ ہمارے ساتھی صحافی چائے پینے کے آخری حد تک شوقین ہیں اس طرح کچھ اور ساتھی تیر انداز بھی نکلے ، جن کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ ان کے جسم میں خون کی جگہ چائے ہی دوڑ رہی ہوگی .
ساتھی غنی الرحمان جو کسی زمانے میں کوریج کیلئے بھارت گئے ہوئے تھے اور وہاں پہلی مرتبہ شلوار قمیض کی جگہ پینٹ کا استعمال شروع کیا تھا لمبے عرصے بعد انہوں نے ٹریک سوٹ پہن کر یہ ریکارڈ توڑ دیا حالانکہ اس میں ایک چیز کی کمی تھی جو شائد اب تک ہر جگہ کھیلوں کے میدان میں دیکھنے کو مل رہی ہیں لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہا. شائد ہمارے اقدار بدل گئے ہیں.
دو دن کے سفر میں حدیث پاک یاد آئی جس کے معنی کچھ اس طرح ہیں کہ کہ اگر کسی کو جاننا ہے تو اس کے ساتھ سفر کرو تو پتہ چلے گا کہ کیساہے ، اور اس سفر نے ہمیں بتا دیا کہ چائے پینے کے شوقین کتنے ہیں یہ الگ بات کہ ان دو دنوں میں ہمیں بھی ان ظالموں نے چائے پلا پلا کر اپنی طرح کرنے کی کوشش کی ، کہاں صبح اور شام ایک کپ چائے اور کہاں چائے پر چائے ، ..اس ٹرپ میں ایک اچھی بات جو دیکھنے کو ملی کہ ایک معذور تیر اندازجس نے حال ہی میں راولپنڈی میں پیرا آرچری مقابلوں میں خیبر پختونخواہ کی نمائندگی کرکے گولڈ میڈل حاصل کیا تھا اس کے ساتھ ساتھی تیر اندازوں کا تعاون تھا ، اسکے لئے وھیل چئیر پہنچانا بٹھا اور مقابلوں کیلئے لانا یہ ایک محنت طلب کام تھا لیکن ذاتی طور پر دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کیا سینئر اور کیا جونئیر سارے تیر اندازاس کی وھیل چیئر اٹھا کر لے جاتے تھے خوشی اس بات کی ہوئی کہ یوتھ ڈائریکٹریٹ نے تیر اندازوں کیلئے چیمپئن شپ کرانے کیلئے تعاون کیا-جس سے تیر اندازوں میں کھیلوں میں دلچسپی بھی بڑھ گئی اور ساتھ ہی انہیں سیر و سیاحت کا موقع بھی ملا.یعنی سپورٹس کیساتھ ساتھ سیاحت کرنے کا موقع بھی فراہم ہوا- جس پر کسی حد تک سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور یوتھ افیئر ڈائریکٹریٹ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں.
واپسی لیٹ شروع ہوئی تھی اس لئے پشاور واپس لیٹ ہی پہنچے لیکن راستے میں خیبر پختونخواہ آرچری کلب کے کچھ تیر اندازوں کے ٹھمکوں نے ھنسنے پر مجبور کردیا ایسے کم عمرتیر انداز اور ایسے ٹھمکے لگتا نہیں تھا یہ تیر انداز ہیں اس لئے ہم نے تو آرچری کلب والوں کو کہہ دیا کہ اگر ڈانس کرنے والوں کا مقابلہ ہو تو پھر اپنے ان ننھے تیر اندازوںکو اس میں حصہ لینے کیلئے بھیج دیں.خیر رات گئے واپس پشاور پہنچ گئے اورپھر ہم تو ٹریک سوٹ میں ہی گھر گئے البتہ ہمارے ساتھی دوست ٹریک سوٹ کیساتھ قمیض پہن کر اپنے گھر گئے اور یوں یہ سفر اختتام پذیر ہوا
Load/Hide Comments