ایک صحافی کا اپنے ضمیر کے نام خط ۔۔۔ خصوصی تحریر: مسرت اللہ جان

اے میرے ضمیر..
یہ خط میں تمھارے نام اس لئے لکھ رہا ہوں کہ آج کل تم نے مجھے بہت زیادہ تنگ کیا ہوا ہے کہ اکیلے جان ہو..کس کیلئے اپنے آپ کو خراب کررہے ہو. اے میرے ضمیر. تمھیں کیا پتہ کہ یہ پیٹ انسان سے کیا کیا پاپ کراتا ہے اور اسے پاپی پیٹ کی خاطر میں نے کیا نہیں کیا. تمھیں کیا پتہ نہ تو تمھارا پیٹ ہے اور نہ ہی تمھارے بچے ، نہ ہی خاندان ، نہ ہی تمھارا کوئی سٹیٹس ہے .خیر چھوڑدو اس بات کو میں آج تمھیں اپنے دل کی بات لکھ رہا ہوں..
اے میرے ضمیر. .
آج کل تو میں ویسے بھی اکیلا ہوں تو شائد مجھے تم اکیلا سمجھ کر زیادہ تنگ کرتے ہوں . دیکھنے میں بہت اچھا خاصا ہٹا کٹا ہوں لیکن. اندر سے میں بہت بزدل ہوں.
میرے سوئے ہوئے ضمیر..
آج تم مجھے تنگ کررہے ہوں لیکن کیا تمھیں پتہ ہے کہ میں نے صحافت کا شعبہ کس لئے منتخب کیا . آج تو مجھے لوگ بہت بڑی چیز سمجھتے ہیں لیکن کیا تمھیں یاد نہیں کہ میں دو چار مرلے کے ایک مکان میں ایک دقیانوسی علاقے میں رہتا تھا اس گھر میں میرے ساتھ گھر کے دوسرے افراد بھی تھے.یہ تو شکر ہے کہ مجھے سرکار کی نوکری یعنی ان کے جھوٹ کو سچ کہنے کی نوکری مل گئی اور میں نے سب کچھ ٹھیک ہے کی راپ الاگنا شروع کردیااسی باعث میری سرکاری نوکری کنفرم بھی ہوگئی ورنہ میں تو کام سے گیا تھا. اس گھر کو بیچ کر اپنا حصہ لیکر بڑا گھر لیا . آج میں اپنے بچوں کیساتھ رہائش پذیر ہوں.اگر میں تمھاری اس وقت بات مانتا تو یہ اسی دقیانوسی گھر میں رہائش پذیر ہوتا .ٹھیک ہے کہ میں نے بہت سارے مداریوں / سرکاری افسران کی خوشامد کی . لیکن اگر یہ نہ کرتا تو پھر کیا کرتا..

تم اس وقت مجھے بہت زیادہ تنگ کرتے ہو جب میں کسی صنف نازک کو دیکھ کر” یہ میری محبوبہ ہے”سمجھتا ہوں اور کبھی کبھار میرے منہ سے سچ بھی نکل جاتا ہے جسے کچھ لوگ سچ بھی مانتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں صنف نازک کو دیکھ کر مجھے کچھ نہ کچھ ہونے لگتا ہے. یہ الگ بات کہ میری جسامت ایسی ہے کہ اسے دیکھ کر شائد ہی کوئی گدھی بھی مجھے لفٹ کرائے .لیکن کیا کرو ں دل بھی تو خوش کرنا ہوتا ہے. جب میں موٹر سائیکل پر کسی صنف نازک کو لیکر چلتا ہوں تو اس وقت مجھے تم بہت زیادہ تنگ کرتے ہو کہ تمھارا حادثہ بھی ہوسکتا ہے اور پھر کیا جواب دو گے.لیکن شکر ہے کہ میرا کبھی اس طرح حادثہ نہیں ہوا. ہاں مجھے حادثہ یاد ہے.جس پر آغاز میں تم نے مجھے بہت تنگ کیا.. میں تمھیں وہ حادثہ یاد دلاتا ہوں..
ٹھیک ہے میرے ضمیر ..
کہ صنف نازک کے پیچھے پڑنے کی وجہ سے مجھ پرکالجز میں پابندی لگی تھی اور مجھے بہت زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اس وقت بھی تم نے مجھے غیرت دلانے کی کوشش کی تھی لیکن اے میرے ضمیر..
تم وہ چیز جگانے کی کوشش کررہے ہو جسے میں نے بڑی مشکل سے تھپک تھپک کر سلایا ہوا ہے.تبھی میرا جثا بھی ایسا ہے .ورنہ میں تو آغاز میں سوکھا پتلا تھالیکن جب سے میں نے اس غیرت نامی چیز کو سلایا ہوا ہے میری صحت بھی بہت اچھی ہوگئی ہے . ٹھیک ہے کہ میری عمر زیادہ ہے اور میں نارمل انداز میں چل بھی نہیں سکتا لیکن میں نے اس شعبے میں 25 سال سے زائد کا عرصہ گزار دیا ہے اور لوگ مجھے سینئر سمجھتے ہیں جس کا میں بہت زیادہ فائدہ اٹھاتا ہوں.
اے میرے ضمیر..


: ضمیر کا صحافی کا جوابی خط ۔ تحریر: مسرت اللہ جان


تم مجھے کبھی کبھار اس پر بھی ملامت کرتے ہو کہ میں صنف نازک کیساتھ اپنی تصاویر بنوا کر شیئر کرتا ہوں .تم ہو تو میرے ضمیر لیکن دو ٹکے کے دوسرے صحافیوں کی طرح سچائی کا الاپ کرتے رہتے ہو.میرے ضمیر ہو تو میرا ساتھ دو..
ٹھیک ہے کہ کل کے یہ دو ٹکے کے صحافی مجھے کچھ بھی نہیں سمجھتے لیکن میں اپنے شعبے کا ماہر انسان ہوں. تم مجھے ہر وقت گناہ ، ثواب ، دنیا و آخرت کی باتیں کرکے میرا منہ کا ذائقہ خراب کرنے کی کوشش کرتے ہوں.ہاں ہاں صبر کرو.مجھے اس وقت بھی بہت زیادہ تنگ کرتے ہو کہ جب میں بڑے افسران کے نام پر چھوٹے عہدوںپر تعینات لوگوں کو بلیک میل کرتا ہوں اورکبھی کبھار بہت زیادہ جھوٹ بولتا ہوں.اتنا جھوٹ کہ جھوٹ کو بھی شرم آتی ہے کہ یہ کیا بول رہا ہے لیکن تمھیں کیا پتہ میرے اس بڑبولے پن اور مسلسل جھوٹ بولنے اور بے دھڑک بولنے نے مجھے کتنا فائدہ دیا ہے. مجھے اس بولنے کی وجہ سے ہر جگہ بلایا جاتا ہے میں ہرفورم پر اپنی نمائندگی کرکے اپنا فائدہ ڈھونڈتا ہوں.
بس بس صبر کرو. میرے ضمیر.. مجھے پتہ ہے کہ تم بھی میرے طرح دیکھنے میں سرخ و سفید ہو لیکن ہو اندر سے مکمل کالے..
میں ابھی کرونا کی وجہ سے اس ملک میں قید ہوں ورنہ میں تمھیں دکھاتاکہ کس طرح میرے اس ملک سے نکل جاتا . ٹھیک ہے کہ مجھے ویزا نہیں مل رہا لیکن میں ایک گیم بنا رہا ہوں جس پر تم مجھے بہت زیادہ تنگ کرتے ہوں لیکن جب میں نکل جائونگا تو پھر تمھیں بتا دونگا کہ میں نے کس طرح اپنا خرچہ نکالا-
خیر یہ خط بہت زیادہ لمبا ہوگیا ہے میرے دوسرے خط کاانتظار کرو.لیکن میں پہلے سے بتا دوں کہ اے میرے ضمیر تم اب جاگنے کی کوشش مت کرنا. ورنہ غیرت کی طرح میں تمھیں بھی مکمل سلا دونگا..
شکریہ

ایک صحافی

یہ بھی ملاحظہ کیجے : یہ ریٹنگ ریٹنگ کیا ہے ؟ تحریر سید فخر کاکاخیل

ایک صحافی کا اپنے ضمیر کے نام خط ۔۔۔ خصوصی تحریر: مسرت اللہ جان” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں