پاکستان میں کم عمری کی شادیاں۔۔۔ خصوصی تحریر : شکریہ اسماعیل

شکریہ اسماعیل
اعدادو شمار کے مطابق دنیا کی پچانوے فیصد کم عمر ماؤں کا تعلق غریب ممالک سے ہے اور پاکستان کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 کے مطابق پاکستان میں، تین میں سے ایک لڑکی کی شادی 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کر دی جاتی ہے ۔کم عمری کی شادی کئی وجوہات کی بنا پر کیا جاتی ہے جن میں روایات اور رسومات، غربت، بیداری، تعلیم تک رسائی کے مواقع کی کمی، اور تحفظ کا فقدان شامل ہیں۔

12 سالہ پلوشہ کو “اپنے والد کے عقائد” کی وجہ سے بچپن کی شادی کے لئے مجبور کیا گیا۔پلوشہ نے انکشاف کیا کہ “میرے والد کا خیال تھا کہ ایک بیٹی کا بلوغت کو پہنچنے کے بعد غیر شادی شدہ رہنا گناہ ہے۔”

سنبل 14 سال کی تھی جب اس کی شادی اپنے 20 سالہ کزن وسیم کر دی گئی۔ وہ سوات کے علاقے مدین کے ایک سکول میں آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی لیکن اسے شادی کے لئےسکول چھوڑنا پڑا۔ کم عمر، سنبل اکثر گھریلو تشدد کا شکار بھی بنتی تھی۔ اس دوران وہ ایک بیٹی کی ماں بن گئی۔ حمل کے دوران مناسب خوراک نہ ملنے اور اچھی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ طبی مسائل کا شکار ہو گئی ۔ وہ خود بھی اتنی سمجھدار نہیں تھی کہ اپنا خیال رکھ سکے جسکی وجہ سے اسکی صحت روز بروز بگڑتی گئی۔ بالآخر، اس کے شوہر نے اسے طلاق دے کر بیٹی کواپنی تحویل میں لے لیا۔ اب سنبل ایک بار پھر اپنے والدین کے ساتھ رہنے پر مجبور ہے وہ اتنی تعلیم یافتہ نہیں ہے کہ اچھی ملازمت حاصل کر کے اپنے پاوں پر کھڑی ہوسکے ۔
بات صرف پلوشہ یا سنبل تک محدود نہیں یونیسیف کے مطابق پاکستان میں تقریباً 19 ملین بچیاں ہیں۔ اقوام متحدہ کے بچوں کی ایجنسی کا اندازہ ہے کہ تقریباً 4.6 ملین کی شادی 15 سال کی عمر سے پہلے اور 18.9 ملین کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہو چکی ہوتی تھی۔
آسیہ عارف، اسپارک کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے بتایا کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں خواتین کی لیبر فورس میں شرکت 22 فیصد ہے جو کہ جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے ۔ انکا کہنا تھا کہ کم عمری کی شادی اور کم تعلیم صرف غیر ہنر مند گھریلو جبری مشقت کو جنم دیتی ہے۔پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سب سے زیادہ انتہائی کمزور قانون سازی اور پھر ان قوانین پر عمل درآمد کی کمی ،معاشرے کے قبائلی اور جاگیردارانہ ڈھانچہ،آگاہی کا فقدان، انتہائی غربت، اندرونی اسمگلنگ اور غیر موثر اور غیر ذمہ دارنہ پیدائشی رجسٹریشن کا نظام بھی ہے۔ بچوں، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے پیدائش کے اندراج کو کبھی ترجیح نہیں دی جاتی، جس سے شادی کے وقت بچوں یا لڑکیوں کی عمر میں ہیرا پھیری کی گنجائش رہتی ہے۔ اس کے علاوہ، بچوں کے حقوق کے لئے مضبوط تنظیموں کا فقدان بھی بچوں کی شادیوں کے معاملے سمیت بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کا سبب بنتا ہے ۔

ہم ابھی تک 1929 کے قانون کو لے کر چل رہے ہیں

اگرچہ چائلڈ میرج کا مسئلہ پوری دنیا میں شدت اختیار کرتا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں صورتحال خاص طور پر ابتر ہے۔ کئی دیگر مسلم ممالک، جیسے متحدہ عرب امارات، مصر اور لیبیا وغیرہ میں لڑکیوں کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے، لیکن ہم ابھی تک 1929 کے قانون کو لے کر چل رہے ہیں۔خیبر پختونخوا میں دس سال سے ایک بل منظور کرانے کی کوششیں جاری ہیں، جو ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں اور ہر بار مذہب کی آڑ لے کر مسودہ پارلیمان کی کمیٹیوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ کم عمری کی شادی کو مذہب کے ساتھ نتھی کر کے کئی والدین اپنی بچیوں کی ذندگی داو پر لگا رہے ہیں جسکی ایک مثال ہمارے سامنے 12 سالہ پلوشہ کی صورت میں موجود ہے ۔

لڑکیوں کے لیے طبی نقصانات

ماہر گائناکالوجسٹ مہناز فیصل بتایا کہ ان کے پاس آئے روز ایسے کیسز آتے ہیں جن میں زیادہ تر کم عمری میں شادی کے باعث لڑکیوں کو فسٹولا جیسے تکلیف دہ مرض لاحق ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سرطان اور اندرونی انفیکشن بھی ایسی لڑکیوں کی زچگی کے دوران اموات کی بڑی وجوہات ہیں۔ مزید یہ کہ ایسی شادی شدہ لڑکیوں میں جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے اور ان کی تولیدی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں