پولیو کا بڑھتا ہوا خطرہ: خیبر پختونخوا سے نیا کیس، 2025 میں تعداد 14 تک پہنچ گئی

پشاور ( دی خیبرٹائمز مانیٹرنگ ڈیسک ) اسلام آباد: قومی ادارہ صحت (NIH) اسلام آباد میں قائم ریجنل ریفرنس لیبارٹری برائے پولیو کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان سے پولیو کا ایک اور کیس سامنے آ گیا ہے، جس کے بعد سال 2025 میں ملک بھر میں پولیو کیسز کی تعداد 14 ہو گئی ہے۔

اس تازہ ترین کیس میں متاثرہ بچہ شمالی وزیرستان کی یونین کونسل میرعلی-3 کا 19 ماہ کا لڑکا ہے، جو رواں سال خیبر پختونخوا سے سامنے آنے والا آٹھواں پولیو کیس ہے۔ مجموعی طور پر، 2025 کے دوران اب تک رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز میں خیبر پختونخوا سے 8، سندھ سے 4، جبکہ پنجاب اور گلگت بلتستان سے ایک ایک کیس شامل ہے۔

پولیو ایک نہایت متعدی اور ناقابل علاج بیماری ہے، جو عمر بھر کی معذوری کا سبب بن سکتی ہے۔ اس سے بچاؤ کا واحد مؤثر طریقہ بار بار پولیو کے قطرے پلانا ہے، خاص طور پر پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں کو ہر مہم کے دوران قطرے پلوانا اور تمام بنیادی حفاظتی ٹیکے وقت پر مکمل کروانا ناگزیر ہے۔

ملک بھر میں پولیو کے خاتمے کے لیے مہمات میں بہتری لائی جا رہی ہے، تاہم خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع اب بھی ایک بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں گھر گھر جا کر ویکسین پلانے میں درپیش مشکلات اور محدود رسائی کی وجہ سے ہزاروں بچے ویکسین سے محروم رہ جاتے ہیں، جو انہیں پولیو وائرس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں 23 سے 28 جون کے دوران چھ یونین کونسلز میں خصوصی پولیو مہم چلائی گئی، جس میں 17,485 بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے۔ اب اسی طرز کی ایک اور خصوصی مہم شمالی وزیرستان کی 11 یونین کونسلز میں بھی شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ، اگست میں جنوبی خیبر پختونخوا میں ایک وسیع پیمانے پر پولیو مہم چلانے کی تیاری بھی کی جا رہی ہے۔

پولیو کے حالیہ کیسز اس بات کا ثبوت ہیں کہ جو بچے ویکسین سے محروم رہ جاتے ہیں، وہ شدید خطرے سے دوچار ہوتے ہیں۔ اگرچہ حکومت اور صحت کے عملے کی کوششیں جاری ہیں، مگر اس جنگ میں والدین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ہر قطرہ بچے کی قوتِ مدافعت کو مضبوط کرتا ہے اور ایک محفوظ مستقبل کی ضمانت بنتا ہے۔

پولیو کا خاتمہ ایک قومی فریضہ ہے۔ فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز دروازے دروازے جا کر بچوں کو زندگی بچانے والی ویکسین دے رہے ہیں، مگر مستقل تحفظ والدین کی ذمہ داری سے جُڑا ہوا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ ہر مہم کے دوران بچوں کو ضرور پولیو کے قطرے پلوانے کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔

اگر معاشرہ، والدین، اور صحت کے ادارے متحد ہو جائیں تو ہم پولیو وائرس کو ہمیشہ کے لیے شکست دے سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں