(قرنطینہ سے کترینہ تک کا سفر )

چین کے شہر وھان سے جنم لینے والے وائیرس کو کرونا کا نام دیا گیا ۔
وائیرس کے ساتھ قرنطینہ کا نام پہلی بار سننے کو ملا،اسی طرح سنیٹائیزر سے بہت سے لوگ پہلی بار واقف ہوئے، سوشل ڈیسٹنسنگ ، آئیسولیشن اسی طرح نئے نئے نام پہلی بار سننےکو ملے، مگر کترینہ کا نام تو پہلے سے مقبول تھا اس نام سے تقریبا ہر شخص واقف ہے۔ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلی محمود خان نے مرادن میں قرنطینہ دورے کے دوران میڈیا سے گفتگو میں قرنطینہ ادائیگی کی بجائے کترینہ لفظ ادا کیا جس پر سوشل میڈیا میں ان پر تنقید ہوئی تو کہی کرونا سے پریشان چہرے کھل اٹھے اور کترینہ کیف یاد دلانے پر وزیر اعلی کی تعریف کی ۔
قرنطینہ سنٹرز و گھروں کے اندر پندرہ دن تک ائیسولیشن میں رہنے والے لوگ بیمار رہنے سے زیادہ پریشان ہے تو اس وائیرس اور قسما قسم چھ میگوئیوں سے۔
ایسے میں کترینہ نام سننے سے ان کے چہروں پر ہنسی آئی۔
ماہرین صحت کہتے ہیں یہ وائرس ایک سے دو ، دو سے چار اور اسی طرح تمام لوگوں تک باآسانی پھیل سکتا ہے۔
اختیاطی تدابیر اختیار کرنے، صفائی اور فاصلے کیساتھ رہنے کی تاکید کی جاتی ہے۔
دیکر حکومتوں کی طرح حکومت پاکستان نے ابتدائی طور پر غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہر سے بغیر اسکریننگ کے لوگوں کو ملک میں داخل ہونے دیا، جس سے یہ بیماری ملک کے دور داراز علاقوں تک پھیلی اور یہی وجہ ہے کہ آج تقریبا ہر ضلع میں یہ وائیرس پھیل چکا ہے، جسطرح آسانی کے ساتھ یہ وائیرس ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے اس حساب سے ہمیں قوی یقین ہے کہ اب تقریبا ہر انسان کو یہ وائیرس پہنچ چکا ہوگا ۔
اللہ کے فضل وکرم ، انسان کے اندرونی قوت مدافعت اور نیک لوگوں کی دعاووں کا نتیجہ ہے کہ آج ہر شخص قرنطینہ سنٹر یا آئی سی یو میں نہیں ،
حکومت نے کئی ہفتے گزرنے کے بعد وائیرس پھیلنے کے خدشے کےپیش نظر لاک ڈاون کیا، تعلیمی ادارے، مراکز صحت ، دکانیں، بین الاضلاع اور اندرون اضلاع پبلک ٹرانسپورٹ کو بند کیا اور ہر ہفتے بعد اس پابندی میں ایک ہفتے کی توسیع کر دیتے ہیں۔
خیبر پختون خوا حکومت نے 12 اپریل 2020 تک پبلک ٹرانسپورٹ بند کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کا نقصان فقط غریب طبقے کو ہو رہا ہے۔ امیر طبقہ اسپیشل گاڑی میں کہیں سے کہیں جا رہے ہوتے ہیں۔ دکاندار اپنے دکان کے سامنے بیٹھ کر سامان فروخت کرتےہیں ،ہئیرکٹنگ ، بیوٹی پارلرز بند دروازے میں کمائی کرتے نظر آتے ہیں ۔
حکومتی پابندیوں کے باعث معیشت کا پہیہ رک گیا ہے، اور بیرونی قرضے سود کی صورت میں بڑھ رہے ہیں، چند ملین ڈالر بیرونی امداد کرونا کے خلاف استعمال کئے جاتے ہیں اور نہ ہی اس کےلئےکافی ہے۔
اس وائیرس کا دنیاں بھر میں علاج نہیں البتہ ماہرین صحت کہتے ہیں کہ یہ وائیرس ہر مرد و عورت کو کچھ نہیں کہہ سکتے سوائے ان لوگوں کےلئیے باعث تشویش و ہلاکت ہے جو پہلے سے بیمار ہو یا جس کسی کی قوت مدافعت کمزور ہو ۔
اس لئیے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین، بچے بوڑھےاور کمزور لوگوں کو زیادہ اختیاط کی ضرورت ہےاگر کہیں انہیں یہ وائیرس منتقل ہوا تو صحت مند فرد کی نسبت انہیں زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
حکومت وائیرس سے متاثر ہر شخص کو علاج پہنچا سکتے اور نہ ہی ان کے بس کی بات ہے۔
خیبرپختونخوا میں ہر 24 گھنٹے بعد کرونا وائرس کے درجنوں کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں اب تک مصدقہ کیسز کی تعداد 527 ہوگئی ہے ۔
محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق صوبہ میں کرونا سے جاں بحق افراد کی تعداد 18 ہوگئی۔
صوبے میں مشتبہ مریضوں کی تعداد 1 ہزار 280 تک جا پہنچی ہے۔
اب تک خیبر پختون خوا میں 3 ہزار 68 افراد کے ٹیسٹ ہوچکے ہیں جن میں 1261 مشتبہ جبکہ 527 کیسیز پازیٹیو آئے ہیں۔۔ اس حساب سے اگر ٹیسٹوں کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ تک پہنچی تو خدانخواستہ ہر ایک لاکھ میں سے پچیس ہزار لوگوں میں یہ وائیرس موجود ہوگا ۔
حکومت نے پانچ سے زیادہ افراد کےجمع ہونےپرپابندی لگائی مگر وائیرس کم ہونےکی بجائے نئیےعلاقوں کولپیٹ میں لےلیتا ہے۔
اب تاجرکہتےہیں کہ وہ حکومتی سپورٹ کے بغیر مزید لاک ڈاؤن کو برداشت نہیں کرسکتے، اب انہوں نے سڑکوں پرآنےکی دھمکی دی ہے ۔ مستری ورکشاپ جانے کے لئے، مزدور دو وقت کی روٹی کے حصول کے لئیے مزدوری، نمازی مسجد، بیمار ڈاکٹر سے چیک اپ کرنے اسپتال یا کلینک ، کھلاڑی کھیلنے گراونڈجانےکوبےتاب ہے تو دیہاڑی دارحکومتی اعلان کردہ امدادکےمنتظر ہیں ۔
اس صورتحال میں اگرعوام نے تنگ ہوکر بغاوت کی تو ⁧کرونا⁩ پولیو وائیرس کی طرح ملک میں باقی رہ جائےگا۔
پولیو وائیرس کا دنیاں بھر سے خاتمہ ہوا مگر غیر سنجیدگی سے پاکستان ،افغانستان اور نائیجیریا سے آج بھی اس وائیرس کا خاتمہ ممکن نہ ہوسکا ۔
اب اگر لاک ڈاون سےلوگ تنگ آکر سڑکوں پر آئے تو اس وائیرس کا خاتمہ ناممکن ہو جائے گا پھر عالمی دنیاں ھم سے قطع تعلق رکھنے کا پلان بناکر خدا نخواستہ ھم دنیاں بھر سے آئیسولیشن کا شکار ہو سکتے ہیں ۔

تحریر : رسول داوڑ

(قرنطینہ سے کترینہ تک کا سفر )” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں