تحریر: ناصرداوڑ
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ پیچیدہ اور نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان دو ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے، جس کی بنیادی وجہ دہشت گردی اور سرحد پار حملے قرار دیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ “دہشت گردی بدستور دونوں ممالک کے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہ ہونے دے۔
پاکستان کا مؤقف
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان سرزمین سے تحریک طالبان پاکستان (TTP) جیسے گروپ نہ صرف پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں بلکہ متعدد بار سیکیورٹی فورسز اور شہریوں کو نشانہ بھی بنا چکے ہیں۔ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جو نہ صرف پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ خطے میں عدم استحکام کا سبب بھی بن رہا ہے۔
ترجمان شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستان نے متعدد بار افغان حکومت کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کی ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان سنجیدہ اقدامات کرے۔ ان کے مطابق، اگر افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے جاری رہے تو یہ دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
افغانستان کا ردعمل
طالبان حکومت نے ان الزامات کی بارہا تردید کی ہے کہ وہ کسی بھی دہشت گرد گروپ کو اپنی سرزمین استعمال کرنے دیتی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ افغانستان کسی ملک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ طالبان قیادت کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے داخلی مسائل کی وجوہات افغانستان پر ڈالنے کے بجائے، اپنے اندرونی سیکیورٹی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
سرحدی کشیدگی اور حملے
گزشتہ چند مہینوں کے دوران پاک افغان سرحد پر متعدد جھڑپیں اور فائرنگ کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے بعض اوقات سرحد پار کارروائیاں بھی کی گئی ہیں، جن پر افغان حکومت نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان واقعات سے دونوں ممالک کے عوام میں بھی اضطراب پیدا ہوا ہے، اور دونوں طرف سے بیانات میں سختی دیکھنے میں آئی ہے۔
ٹرانزٹ ٹریڈ اور معاشی اثرات (اعداد و شمار کے ساتھ)
اگر دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب ہوتے ہیں تو اس کا سب سے بڑا اثر پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر پڑے گا۔ پاکستان افغانستان کو سمندری راستے سے اشیاء کی ترسیل کے لیے ایک اہم گیٹ وے فراہم کرتا ہے، اور افغانستان کے ہزاروں تاجر اس تجارت پر انحصار کرتے ہیں۔
اہم اعداد و شمار:
سالانہ تجارتی حجم: پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارتی حجم 2022-23 میں تقریباً 1.8 ارب امریکی ڈالر رہا، جو ماضی کے 2.5 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح سے کم ہے۔
افغانستان کی درآمدات کا انحصار: افغانستان اپنی کل درآمدات کا تقریباً 60 فیصد پاکستان کے راستے حاصل کرتا ہے، جن میں اشیائے خوردونوش، ادویات، تیل، اور سیمنٹ شامل ہیں۔
ٹرانزٹ ٹریڈ کی تعداد: ہر سال تقریباً 70 ہزار سے زائد ٹرک پاکستان کے راستے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں مصروف ہوتے ہیں۔
چمن اور طورخم سرحدیں: صرف طورخم بارڈر سے روزانہ اوسطاً 800 سے 1000 ٹرک تجارت میں شامل ہوتے ہیں، جن کی بندش یا تاخیر سے دونوں ممالک کو لاکھوں روپے روزانہ کا نقصان ہو سکتا ہے۔
افغانستان کی برآمدات: پاکستان افغانستان کے لیے سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے، جہاں سے افغانستان تازہ میوہ جات، قالین، اور قیمتی پتھر برآمد کرتا ہے۔ کشیدگی سے ان برآمدات میں 25 تا 30 فیصد کمی واقع ہو سکتی ہے۔
غیر رسمی تجارت: اگر رسمی تجارتی راستے متاثر ہوئے، تو غیر قانونی اسمگلنگ میں 40 فیصد تک اضافہ ممکن ہے، جو ریاستی محصولات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اقتصادی نقصان کی ایک جھلک:
2021 میں صرف چمن بارڈر کی عارضی بندش کے دوران پاکستانی تاجروں کو تقریباً 15 کروڑ روپے یومیہ نقصان کا سامنا رہا، جبکہ افغانستان میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 20 سے 40 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ موجودہ کشیدگی کو سفارتی ذرائع سے کم کریں اور مل بیٹھ کر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل طے کریں۔ اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو نہ صرف دوطرفہ تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں، بلکہ خطے میں امن و استحکام بھی شدید متاثر ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی، ٹرانزٹ ٹریڈ کی بندش یا رکاوٹ دونوں ممالک کی کمزور معیشتوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
کابل اور اسلام آباد کو اس وقت ایک دوسرے کے ساتھ اعتماد سازی کی اشد ضرورت ہے۔ دہشت گردی جیسے حساس مسئلے پر الزام تراشی کے بجائے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے عوام امن و سکون کا سانس لے سکیں۔ ٹرانزٹ ٹریڈ اور معیشت کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ سرحدی راستے کھلے رہیں اور مسائل کو بات چیت سے حل کیا جائے۔ خطے میں دیرپا امن کے لیے باہمی تعاون ہی واحد راستہ ہے۔