تحریر: حسینہ گل داوڑ
معزز قارئین!
آج میں وہ کہنے آئی ہوں، جو اکثر صرف سسکیوں میں دفن ہو جاتا ہے۔
میں وہ بات کرنے آئی ہوں جو شاید کوئی سننا نہیں چاہتا، اور جو سچ ہے، وہی سب سے زیادہ تکلیف دہ بھی ہوتا ہے۔
یہ تحریر کوئی عام تجزیہ نہیں۔
یہ ایک فریاد ہے۔
ایک سوال ہے ؟؟؟؟
ریاست سے، اس کے نمائندوں سے، اس کے اداروں سے… اور ہم سب سے۔
ریاست ماں ہوتی ہے؟ یا آقا؟
ہم نے اس ریاست کو ماں کا درجہ دیا تھا۔
ہم نے سوچا کہ یہ زمین ہمیں تحفظ دے گی، عدل دے گی،
مگر وقت نے ہمیں دکھایا کہ یہاں قانون کمزور کا نہیں، طاقتور کا غلام ہے۔
کون سی ماں ہے جو اپنے بچوں کو لاپتہ کر دیتی ہے؟
کون سی ماں اپنے بچوں کو روزگار کے بجائے قبر دیتی ہے؟
کون سی ماں اپنے بچوں کی چیخوں پر آنکھ بند کر لیتی ہے؟
یہ ریاست، اب ماں نہیں رہی
یہ سنگدل آقا بن چکی ہے،
جو صرف اطاعت، خاموشی اور قربانی مانگتی ہے۔
انصاف کے خالی کمرے
آج خیبر، وزیرستان، بنوں، کرم، مہمند، اور پشاور چیخ رہے ہیں۔
بچے مدارس میں بھی محفوظ نہیں، سکولوں میں بھی نہیں۔
نوجوان تعلیم لے کر بھی بے روزگار، اور مزاحمت کریں تو غدار۔
مظلوم احتجاج کرے تو لاٹھیاں، آنسو گیس، گولیاں۔
اور اگر لکھے، تو “باغی” کہلاتا ہے۔
ارے یہ کیسی ریاست ہے؟
یہ کیسا نظام ہے؟
جس میں “حق مانگنے والا” ہی مجرم کہلاتا ہے!
خاموشی کا بوجھ اور سوالات کا شور
کوئی بتائے!
ویرستان میں کیا ہو رہا ہے؟
باجوڑ میں مولانا خانزیب کے ساتھ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟
کیا ان سوالات کے جواب دینے والا کوئی ہے؟
یا ان سوالوں کی قیمت بھی ہمیں لاشوں سے ادا کرنی ہو گی؟
ہم سب خاموش ہیں، کیونکہ ہمیں سچ بولنے کی سزا دی جاتی ہے۔
جب آواز جرم بن جائے
جب ہم بولتے ہیں،
ہمیں غدار کہا جاتا ہے۔
جب ہم لکھتے ہیں،
ہم پر ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔
جب ہم پر امن مظاہرہ کرتے ہیں،
ہم پر ڈنڈے، آنسو گیس، اور گولیاں برسائی جاتی ہیں۔
جب ہمارے معصوم بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے،
تب ریاست “نامعلوم” کہہ کر آنکھیں بند کر لیتی ہے۔
تو ہاں…
میں بھی غدار ہوں۔
میں بھی باغی ہوں۔
کیونکہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اب جرم ہے!
ہماری فریاد — ہماری جدوجہد
یہ تحریر کوئی اشتعال نہیں،
بلکہ ایک سوال ہے
ایک پکار ہے اُس ریاست سے، جو خود کو جمہوری کہتی ہے۔
ہم نے وعدے سن رکھے ہیں۔
ہم نے آئین کی کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔
ہم نے خواب دیکھے ہیں
ایسی ریاست کے، جہاں عدل ہو، برابری ہو، اور تحفظ ہو۔
تو کیا ہم سوال بھی نہ کریں؟
کیا ہم اپنی جانوں کے بدلے خاموشی بھی خریدیں؟
ریاست کو سوچنا ہو گا
کہ اگر وہ واقعی ماں ہے،
تو اپنے بچوں کو گمشدہ نہیں، محفوظ بنائے۔
اگر وہ واقعی جمہوری ہے،
تو لاٹھی کے بجائے دلیل سے بات کرے۔
ہم سڑکوں پر نہ آتے، اگر ادارے سننے والے ہوتے۔
ہم شور نہ مچاتے، اگر پارلیمنٹ میں ہمارے سوالوں کی آواز گونجتی۔
ہم “باغی” نہ بنتے، اگر “محب وطن” ہونے کا مطلب صرف اطاعت نہ ہوتا۔
آج کے بعد کوئی چپ نہ رہے،
کیونکہ
خاموشی کا ہر لمحہ، ظلم کا ساتھ ہے۔
#دی_خیبر_ٹائمز
#آزادی_اظہار
#پشتون_حقوق
#ریاست_ماں_بن_جائے
#انصاف_دو