تاریخ کا سبق یاد رکھیں! طالبان کے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں۔۔ خصوصی تحریر: عماد سرحدی

افغانستان میں امریکہ کی بیس سالہ مہم جوئی طالبان کے اقتدار کا سورج طلوع ہونے کے بعد ختم ہوگئی ،گویا طالبان نے نائن الیون کے بعد اپنے اقتدار کو امریکہ کی موجودگی میں ہی واپس حاصل کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ سپر پاور کوئی اور نہیں صرف اللہ کی ذات ہے،پچھلے بیس سال میں دو بار کی کرزئی حکومت اور اشرف غنی کا سوا ایک سالہ اقتدار کابل سے باہر نظر نہیں آیا ،اس سارے عرصے میں باہر سے افغان باشندے آکر کابل میں اپنا اسٹیک بلند وبالا عمارتوں اور ہوٹلز کی صورت میں جمع کرتے رہے اور اس سارے عمل میں پراپرٹی اور لینڈ کا کاروبار ہوا،کابل میں اس لئے کہ اس بدقسمت افغان دارالحکومت کی رہائش گاہیں ڈالروں میں بکتی ہیں ،کرائے ڈالروں میں آتے ہیں اور ہر افغان تارک وطن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کابل میں بڑی انویسٹمنٹ کرکے ملک سے باہر کمانے والے ڈالر واپس آکر اب افغانستان میں ہی کما سکیں،ڈالروں کی یہ برسات امریکہ اور نیٹو کے اتحاد کی کابل میں موجودگی کے سبب ہی تھی اوریہی وجہ ہے کہ جب کابل سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا ء ہوا تو کمائی کا وہ ذریعہ بند ہوگیا جس کی خاطر افغان واپس آرہے تھے،اس 20سالہ دور میں جائیدادیں بنانے والے کابل کے ایئر پورٹ پر جب جہاز سے لٹکے نظر آئے تو افسوس تو ہوا ،وہ افغان جو اس مٹی کو خاک وخون میں لپٹا دیکھ کر بھی اپنا ملک چھوڑ کر نہیں گئے وہ یہ طالبان ہی تو تھے ،اب جب غیر ملکی واپس جارہے ہیں تو بیس سال تک امریکہ کو کابل سے باہر ناکوں چنے چبوانے والے طالبان کابل کی طرف منظم پیش رفت سے آگے بڑھے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کوئی سپر پاور انکے سامنے ٹھہر نہ سکی ،افغانستان میں انکا اسٹیک کتنا پرانا ہے اور انکی مزاحمت اس سے بھی پرانی ،،،،جس طالبان گروہ سے بات کی جائے تو وہ کہتا ہے کہ اپنی مٹی کو غیر ملکی استبداد سے آزاد کرانا انکا مطمع نظر تھا ،کیا وجہ ہے کہ ایسی سوچ ان افغانوں کی نہیں جنہیں کابل صرف پیسہ کمانے کی مشین نظر آتا ہے،تخت کابل پر براجمان بیس سالہ حکمران اس سارے دور میں اپنے بچوں اور خاندانوں کو بھی ساتھ لے آتے تو یوں مسافروں کی طرح جہازوں سے لٹک کر نکلنے کی جلد ی میں نہ ہوتے،پاکستان ایک عرصے تک ملک میں ناجائزذرائع سے کمائی گئی دولت اغیار میں لٹانے کیلئے بدنام رہا ہے اور یہی وہ اشرافیہ ہے جو اپنا اسٹیک باہر چھوڑ آتی ہے، اقتدار کے بغیر اس ملک میں رہنا تو انہوں نے سیکھا ہی نہیں ،یہی حال افغانوں کے ساتھ انکی نام نہاد قیادت نے پچھلے بیس سال میں کیا جہاں پر ٹریلین آف ڈالرز کی امداد لیکر بھی اداروں کو مستحکم کرنے کی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی ،اتحاد اگر کرپشن اور بدعنوانی پر کیا جائے تو حکومتیں اسی طرح ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہیں جسکا اعتراف امریکہ نے بھی آخر کار کرہی دیا،جوبائیڈن تو یہاں تک کہہ گئے کہ جب افغان اپنی سرزمین کی حفاظت نہیں کرسکتے تو امریکہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنے فوجی طالبان کی مسلسل مزاحمت میں مرواتا رہے،کابل میں انسانی بحران اس افغان قیادت کا پیدا کیا ہوا ہے جو صرف ڈالروں کی زبان بولتی اور سمجھتی ہے،پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے غلامی کی جس زنجیر کو توڑنے کی بات کی ہے وہ اس قافیہ اور ردیف میں سمجھی جائے تو ہر ایک کی سمجھ میں آجائے گی،افغان بیانیہ کو اب تبدیلی کی ضرورت ہے اورہر افغان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اس سابق قیادت سے پوچھے کہ پختون ننگ کا یہ موقع گنواکر انہیں کیوں واپس اس بیس سال پرانے دور میں جھونک دیا گیا ہے،تاریخ کا سبق ابھی بھی دور نہیں کہ یاد کرلیا جائے ،حیر ت انگیز طور پر افغانوں میں آنے والی تبدیلی اب طالبان کے رویوں میں نظر آرہی ہے ،شاید تاریخ کا سبق وہ یاد کرچکے۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں