گومل یونیورسٹی کا معاملہ غیر سنجیدگی کی نظرکیوں ۔۔۔ تحریر، زاہد عثمان خٹک

 محتسب ۔۔۔۔ تحریر زاہد عثمان خٹک 

یونیورسٹی کی سیاست کام کرنے والوں کے لئے ذلت نہ کرنے والے نااہلوں کےلئے سہانے دور جیسے ثابت ہورہی ہے گورنر خیبر پختونخوا کی عدم دلچسپی کی وجہ سے نہ صرف ایک نسل بلکہ اس یونیورسٹی کو یونیورسٹی بنانے والے بھی رُسوائی کا سامنا کررہے ہیں سچ کہیں بھی تو کیسے ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت اور اسکے منچلے پروانے عزتوں کا جنازہ نکالنے کا فن جو خوب جانتے ہیں

مجھے ادھر اُدھر کی نہ بات کر
یہ بتا کہ قافلہ کیسے لوٹا
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں
تیری رہبری کا سوال ہے

یہ اشعار جیسے گورنر صاحب کی غیر سنجیدگی کے عکاس ہیں اسی طرح یونیورسٹی میں موجود مافیا قسم کی انتظامیہ بھی اس گناہ میں برابر کی شریک ہے کیونکہ انتظامیہ ہی کی بابرکت یونیورسٹی میں بدعنوانی عروج پر رہی طلبات کی عصمت دری کرنے والے کھولے سانڈوں کی طرح پھیرتے رہے جسکی نہ کسی کی پروا تھی نہ دلچسپی ستم ظریفی یہ کہ جن لوگوں نے اس مافیا کو بے نقاب کرنے کی کوشیش کی دن رات ایک کرکے سب ثبوت پیش کئے لیکن تبدیلی کے روح رواوْں نے یہ گستاخی کرنے کی پاداش میں اُنکو بھلی کا بکرا بنا کر تخت دار پے چھڑا دیا بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ اسی مافیا کے ہاتھوں یہ عظیم کام کروایا تاکہ انصاف بھی حد درجہ انصاف کو دیکھ کر شرما جائے ایک طرف مافیا نے اپنے راستے کے تمام کانٹے داغ بدنامی کے ساتھ صاف کروائے دوسری طرف قلم فروش خودساختہ صحافیوں کو ساتھ ملاکر تاریخی جبر کا ڈنڈورا پھیٹا کہ دیکھو ہم نے کیا کر دیا لیکن انکو شائد یہ خبر نہیں رہی جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا ہے

عدل و انصاف فقط حشر پر موقوف نہیں
ذندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے

ایسا کچھ گومل یونیورسٹی پر مسلط مافیا کے ساتھ ہوا سینڈی کیٹس اور سینٹ میٹنگز کو غلط پیش کرنےکے بعد اپنی ہی غلط بیانیوں نے انکا پیچھا نہ چھوڑاجسکی نئی مثال موجودہ فیصلے جو نئے وی سی کی سنڈیکٹ میٹنگ کے تناظر میں سامنے آیا ہے اگر دیکھا جائے وائس چانسلر نے اپنی حد تک کام کرلیا ہے اب گورنر جو کہ چانسلر ہیں اگر اُنکو پتہ ہو اور دلچسپی رکھتے ہوں اپنے حصے کا کام کرکے مفت میں رسوا ہونے والے اساتذہ یعی ہروفیسرز حضرات کو بحال کرکے پورا کرنے کی چھوٹی سی مہربانی کرلیں،جس سے نہ صرف یونیورسٹی پر مسلط کالی راتوں کے بادل ختم ہونے کی امید بن جائیگی بلکہ انصاف جو پچھلے کئی مہینوں سے اس غلط فیصلے کی وجہ سے شرمندہ کسی کھونے میں خاموش تماشا بنا ہوا ہے اُسکو بھی اس تاریخی جبر سے آزادی نصیب ہوگی جو دوسری جانب اس جبر کی چکی میں پھسنے والے طلبہ کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے امید ہے گورنر صاحب ایسا کریں گے مگر پھر بھی

ہم تو اس واسطے چھُپ تھے کہ تماشا نہ بنے
وہ سمجھتے تھے ہمیں اُنسے گلہ کچھ بھی نہیں

 

یہ بھی پڑھئے : بول کہ لب آزاد ہیں تیرے…. تحریر رفعت انجم


کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں