پشاور شہر کے مختلف علاقوں سے گزرنے والے کابل ر یور کینال کی سالانہ صفائی کا سلسلہ شرو ع ہوگیا ہے کابل ریور کینال پشاور کے مختلف علاقوں میں زرعی زمینوں کو پانی کی فراہمی کیلئے شروع کیا گیا تھا ابتداء میں یہ پانی اتنا صاف تھا کہ لوگ اس پانی کو پینے کیلئے گھروں میں لے جاتے تھے – چونکہ یہ شہر کے باہر تھا اور زرعی زمینوں کی آبپاشی کیلئے استعمال ہوتا تھا، جبکہ شہر کے لوگ اس میں نہانے کیلئے بھی جاتے تھے.
پھر وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ دیہات سے تعلق رکھنے والے افراد کی پشاور شہر میں آمد کے بعد کابل ریور کینال کے سائڈ پر لوگوں کی آبادیاں شرو ع ہوگئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی آلودگی میں اضافہ ہوتا گیا.1980 میں افغانستان میں روسی جارحیت کی نتیجے میں افغانوں کی پاکستان آمد کے بعد پشاور میں افغانوں کو شہر کے مختلف علاقوں میں بسایا گیا جن میں افغان کالونی سمیت ورسک روڈ پر مختلف علاقے شامل ہیں جنہوں نے بھی کابل ریور کینال کی گندگی میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا ، مقامی لوگوں کیساتھ ساتھ افغان شہریوں کی بڑی تعداد میں آمد کے بعد کابل ریور کینال کی گندگی میں اضافہ ہونے لگا کیونکہ افغانوں کی بیشتر ہوٹل مالکان نے کابل ریور کینال کے نزدیک ہوٹل بنا رکھے تھے اور وہ ہوٹلوں کی گندگی اس نہر میں ڈالتے تھے- ان کی دیکھا دیکھی مقامی شہریوں نے اپنے گھروں کی گندگی سمیت سیوریج کا نظام بھی کابل ریور کینال میں ڈالنا شروع کردیا اور یوں کابل ریور کینال گندگی کی ڈھیر میں تبدیل ہو تا گیا.
کسی زمانے میں پشاور شہر سے بالکل باہر کابل ریور کینال اب شہر کے وسط میں آگیا ہے کیونکہ تیز رفتار آبادی نے شہر کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے اور کابل ریور کینال کے دونوں اطراف میں کہیں پر آبادی ہے اور کہیں پر موٹر ورکشاپ ، کہیں پر ہوٹل ہیں اور کہیں پر دکانیں ، جبکہ بعض رہائشی علاقے بھی اسی نہر کے سائڈ پر ہیں جس کی وجہ سے ہر طرح کا فضلہ اب کابل ریور کینال کا حصہ بنتا جارہا ہے. اس فضلے میں ہوٹلوں کی گندگی سے لیکر گھروں کی سیوریج کا پانی ، گٹروں کا پانی تک شامل ہیں جبکہ بعض مقامات پر گٹر بھی اس میں شامل کئے گئے ہیں.
دوسری طرف اب بھی کابل ریور کینال پشاور شہر کے مختلف علاقوں میں زرعی زمینوں کی آبپاشی کیلئے استعمال ہورہا ہے تاہم گندگی سے بھرے اس پانی کے زرعی زمینوں کے استعمال سے پیدا ہونیوالی سبزیوں پر کتنے اثرات مرتب ہوئے ہیں ابھی تک کسی بھی حکومتی ادارے نے اس بارے میں نہ تو کوئی سروے کیا ہے اور نہ ہی کوئی نوٹس لیا ہے کہ گندے پانی کے سبزی پر اثرات کیا ہوئے ہیں اسی طرح زرعی زمینوں پر اس کے اثرات کیا ہیں یہ وہ سروے رپورٹ ہیں جس کی طرف ابھی تک کسی نے بھی توجہ نہیں دی-
کابل ریور کینال کی صفائی کیلئے محکمہ ایریگیشن ہر سال اسے بند کرتا ہے اور مختلف جگہوں پر اس کی صفائی کا عمل جاری ہوتا ہے تاہم یہ صفائی بھی برائے نام ہوتی ہیں جس کا اندازہ شہر کے مختلف علاقوں میں پڑے گندگی کے ڈھیروں سے کیا جاسکتا ہے کیونکہ صفائی کے بعد گندگی کے ڈھیر سڑک کنارے پڑے نظر آتے ہیں اور پھر ہفتے بعد اسے اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہیں – صفائی کرنے والے کنٹریکٹر اس بارے میں موقف رکھتے ہیں کہ اس طرح گندگی کے پانی نکل جاتا ہے اور خشک گندگی کو اٹھانا آسان ہوتا ہے تاہم کابل ریور کینال سے نکلنے والے گندگی کے ڈھیر کی بدبو کے باعث نہ صرف مقامی لوگوں کو مشکلات درپیش ہوتی ہیں بلکہ پیدل چلنے والوں سمیت ٹریفک بھی متاثر ہوتی ہیں تاہم اس پر کسی کی توجہ نہیں ہیں-
ہر سال بھل صفائی کے نام پر اس کی صفائی تو کی جاتی ہیں مگر اس میں گرنے والے فضلے کو ختم کرنے کیلئے کوئی آگاہی مہم شروع نہیں کی جاتی کہ لوگوں کو اس بارے میں آگاہ کیا جائے کہ گندگی کے ڈھیر کابل ریور کینال میں پھینکنا نہ صرف قانونا جرم ہے بلکہ اخلاقا بھی یہ غلط ہے کیونکہ یہ پانی آبپاشی کیلئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح گٹروں کو اس طرف ڈالنے سے یہ پانی آبپاشی کے قابل نہیں رہتا ..
کچھ عرصہ قبل شہر میں صفائی اور پانی کی فراہمی کے ادارے ڈبلیو ایس ایس پی نے اس بارے میں آگاہی مہم شروع کی تھی تاہم یہ صرف اشتہار بازی تک ہی محدود رہی اور اس بارے میں کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی نہ ہی کسی کو جرمانہ کیا گیا جس کی وجہ سے لوگ بھی اس کی صفائی پر توجہ نہیں دے رہے.
کسی زمانے میں پشاور شہر کی صفائی کیلئے استعمال ہونے والا کابل ریور کینال اب فضلے کی ڈھیر بن چکا ہے ، پلاسٹک کے تھیلے سمیت بچوں کے پمپر ، استعمال شدہ دودھ کے ڈبوں سمیت ہر قسم کی غلاظت اب کابل ریور کینال کا مقدر بن چکی ہیںجس پر توجہ نہ تو حکمران دے رہے ہیں اور نہ ہی عوام . اور اگر یہی صورتحال رہی تو ممکن ہے آئندہ دس سالوں میں گندگی کے ڈھیروں کے باعث یہ گندگی اتنی بڑھ جائے کہ زہر آلود ہو جائے کیونکہ اب ہر قسم کی گندگی اس میں ڈالی جارہی ہیں. جو آنیوالے نسلوں کیساتھ زیادتی ہوگی.