شمالی وزیرستان میں جاری کشت وخون۔۔ احسان داوڑ

 

تحریر : احسان داوڑ

ایک دن ایک امام صاحب منبر پر فرما رہے تھے کہ مجھے ایسی دعا معلوم ہے کہ گدھے کو انسان بنا سکتا ہوں ۔ وہاں ایک مقتدی جو حکیموں کی کڑوی کسیلی ادویات کھا کر ناامید ہوچکے تھے اور ان کے ہاں اولاد نہیں ہورہی تھی ۔ تاہم اس کے گھر میں ایک گدھا تھا جو اسے بہت پیارا تھا ۔ اس نے سوچا کیوں نہ اس گدھے کو ہی امام صاحب کے دعا سے انسان بنا ؤں ، مفت میں اولاد مل جائے گا ۔ نماز کے بعد اس نے گدھے کو لاکر مسجد کے باہر انتظار کرتے رہے ۔ امام صاحب نکلے تو انہوں نے اسے وہی دعا یاد دلائی ۔ امام صاحب نے فرمایا بیٹا پچاس روپے دعا کا نذرانہ دیدو اور ایک ہفتے کے بعد اجاؤ۔ ہفتہ گذر گیا ادمی امام صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ تم کدھر غائب ہوگئے تھے اپکے گدھے کو میں نے انسان بنا دیا تھا اور خوش قسمتی سے اسے جاب بھی ملا ہے ۔ جاؤ فلاں دفتر میں اس کو ایک بڑا افسر لگا دیا ہے ۔ ادمی خوشی خوشی تھانے پہنچا جہاں افسر صاحب بیچارہ حالات سے بے خبر دھوپ سینک رہا تھا۔ ادمی اس کے قریب گیا اور عجیب و غریب قسم کی حرکات کرتا رہا تاہم صاحب نے لفٹ نہیں کرائی ۔ اس نے سوچا کہ صبر اپکو میں وہی پُرانا والا نسخہ ازماتا ہوں ۔ قریبی کھیتوں میں گیا اور کچھ چارہ لا کر صاحب کے سامنے لہرایا تو صاحب نے کئی عدد لاتیں مار کر اسے وہاں سے بھگایا ۔ ادمی امام صاحب کے پاس ایا اور کہا کہ استاد اپ نے اسے انسان تو بنایا لیکن لات مارنے کی عادت اس کی ویسی کی ویسی ہے ۔

یہ بھی پڑھئے : ملک قادر خان شہید کی یادیں ۔۔ تحریر . احسان داوڑ

اپکو معلوم ہوگا کہ شمالی وزیرستان میں جنوری سے لیکر اب تک 68 افراد مختلف واقعات میں جان کی بازی ہار گئے ہیں ۔ 40 کے قریب کلہاڑیوں اور چھریوں کے مہلک وار سے زخمی ہوئے ہیں ۔ مجھے اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں کہ یہ سب کس قسم کے واقعات میں قتل اور زخمی ہوئے ۔ کون قصور وار تھا اور کون بے گناہ تھا ۔ میرے سامنے تشویش بلکہ ڈیپریشن کی حد تک پریشان کرنے والی بات یہ ہے کہ گذشتہ بیس سالوں سے ہم نے مختلف قسم کے مظالم سہے ، بے گھر ہوئے ، بے عزت ہوئے ، ذلیل ہوئے ، غربت کی انتہائیں دیکھ لیں ، کئی سالوں تک غلاموں جیسی ہمسائیگی برداشت کی جو کہ ایک پشتون کیلئے جیتے جی موت کے برابر ہے ۔ اسی پردیسی میں ہمیں کئی قسم کے تلخ اور کڑوی تجربات کا سامنا رہا ۔ خدا خدا کرکے واپس ائے لیکن ہمارے اندر کا خناس ، ہماری انا، ہماری ضد ، ہمارا غرور اور ہماری سرکشی کی عادات امام صاحب کے گدھے کی طرح ویسے کے ویسے ہی ہیں ۔ ہم نہ تو انسانوں کی طرح سوچتے ہیں اور نہ ہی تعلیم ہمیں کسی طور انسان بنانے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ جس کا بس چلےاپنی چنگیزی سے باز نہیں اتا ، جس کا حکام تک رسائی ہے وہ اپنے حریفوں کو مختلف طریقوں سے ٹارچر کرنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیتا، اسلحے ضبط ہو ئے لیکن ہماری انائیں اب بھی سر چڑھ کر ہماری عقلوں پر راج کررہی ہیں ۔ کچھ لوگ اداروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ادارے اپنے فرائض کی بجااوری میں ناکام ہیں لیکن کیا ادارے ہر ایک ادمی کے سر پر ایک سپاہی کھڑا کردیں تاکہ کوئی حرکت نہ کرسکے ۔ کیا ہمیں اپنے عقل کو استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ اور کیا ہم نے کبھی بھی انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے ۔ شاید بندوقوں کے بعد اب ہم ایک بار پھر تلواریں بنا نے شروع کرینگے کیونکہ اس دنیا میں ہماری امد ہی ایک دوسرے کو قتل کرنا مقصد ٹھہرا ہے ۔ ہم سے اس پوری دنیا میں غیرتی کوئی نہیں ہیں ۔ ہمارے سامنے کوئی منہ کیوں کھولے گا ۔ یہ تو ایک مرجر ہوا خدا کی قسم اگر واشنگٹن، لندن، جرمنی ، جاپان، ناروے ، سویڈن اور سویٹزر لینڈ کے ساتھ بھی ہماری مرجر ہوجائے تب بھی اگر ہم نے اپنے رویوں پر نظر ثانی نہیں کی تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے ۔ ہم یوں ہی کبھی اغیار کے ہاتھوں اور کبھی خود ایک دوسرے کے ہاتھوں ذلیل ہوتے رہینگے اور دنیا والے تماشا کرتے رہینگے ۔ لگے رہو اے میرے غیرتی وزیرستانیو ۔ لگے رہو ایک دوسرے کا خون پیتے رہو اور اپنی غیرت کا ثبوت دیتے رہو ۔ تاریخ اپ کو ایک غیرت مند اور جنگجو قوم کے طور پر یاد رکھے گی ۔

یہ بھی پڑھئے : فطرت بمقابلہ انسان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احسان داوڑ

 



ادارے دی خیبرٹائمز کے  نمائندے 24 گھنٹے آن لائن رہتے ہیں، کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں 

8 تبصرے “شمالی وزیرستان میں جاری کشت وخون۔۔ احسان داوڑ

اپنا تبصرہ بھیجیں