ٹیری(کرک ) کے ناداروں میں ہندووں کے راشن کی تقسیم۔ اے وسیم خٹک

اے وسیم خٹک

وہ ایک دیہاڑی دار مزدور تھا جس دن گاﺅں میں ہتھ ریڑھی چلا کر لوگوں کا کام کرلیتا تو رات کو اُس کے گھر کا چولہا جلتا۔مگر پھر ایک دن کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاﺅن شروع ہوا اور گاﺅں میں سارے کاروبار رفتہ رفتہ بند ہوتے گئے۔ پہلے دن اُس کے گھر میں فاقہ ہوا۔ دوسرے دن جب وہ روزانہ کی طرح بازار گیا تو وہاں ہو کا عالم تھا ۔اکا دُکا لوگ تھے۔ جن میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جو اُسے مزدوری دیتا۔ وہ پورا دن انتظار کرتا رہا مگر کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ اور گزشتہ روز کا کچھ سامان گھر میں تھا جس سے گزارا ہوگیا ۔ مگر اب یہ روٹین ہونا تھا۔ ساتھیوں نے ڈرایا تھا کہ مزدوری کے لئے مت آﺅ کیونکہ پولیس حوالات میں بند کرتی ہے ۔ اس لئے گھر میں بیٹھ گئے پھررات کو دروازے پر دستک ہوئی اور کچھ خدا ترس لوگوں نے کھانے کا سامان دیا ۔ وہ لوگ ہمیں فرشتے لگے۔ پھر گھر میں ہی دن گزرنے لگے ۔ اور ایک دن پھر کسی نے درواز ہ کھٹکھٹا یااورپھر ایک فوڈ پیکج مل گیا۔ اس دوران لاک ڈاﺅن ختم ہوگیا۔ مگر کاروبار میں وہ تیزی نہیں تھی ۔ جو راشن دیا گیا تھا وہ ختم ہونے کے قریب ہوگیا۔ پھر ایک دوست نے ر ابطہ کیا اُس کا کہنا تھا کہ گروپرماہانس شری مہاراج کے پیروکار آئے ہیں وہ غریبوں کو راشن دے رہے ہیں تم بھی ساتھ چلو۔ میں بھی روانہ ہوا۔ مگر راستے میں ایک بندے نے کہا کہ یہ مدد حرام ہے ۔ یہ ہندوں کا راشن ہے ۔ اس پر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں ۔ یہ گاﺅں والے غلط کر رہے ہیں کہ ہندووں سے مدد لے رہے ہیں ۔ میرے دوست کو اُس نے مائل کرلیا اور وہ مجھے چھوڑ کر واپس ہوگیا۔ جوں ہی میں سمادھی کے نزدیک گیا وہاں بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ جن کو راشن ملنا تھا۔ میں نے انہیںاپنا مدعا بیان کیا۔ اور یوںگاﺅں کے تین سو سے زائد لوگوں کی طرح مجھے بھی راشن مل گیا جس پر کہیں بھی یہ نہیں لکھا تھا کہ یہ ہندووں کا راشن ہے یا مسلمانوں کا۔ کیونکہ دونوں نے پیٹ میں جاکر حل ہونا تھا۔ اور یوں گاﺅں کے اور لوگوں کی طرح جنہوں نے سخت وقت میں ہمیں یاد رکھا گروپرماہانس شری راج کے پیروکاروں نے بھی ہمیں اس کڑے وقت میں یاد رکھ کر ہمارے بچوں کی دعائیں لیں ۔

یہ بھی پڑھئے:   دو ٹکے کے مشروم صحافی تحریر : اے وسیم خٹک

یہ کہانی گاﺅں ٹیری ضلع کرک کے ایک دیہاڑی دار مزدور کی تھی جس نے گزشتہ روز ٹیری میں گروپرماہانس کے سمادھی میں اُس کے پیروکاروں سے فوڈ پیکج وصول کیا تھا۔اس جیسے بہت سے گھرانوں کی یہی کہانی تھی جن پر گرو کے پیروکار کل مہربان ہوئے جنہوں نے دس لاکھ کی امدادی فوڈ پیکجز غریبوں میں تقسیم کئے ۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ عید کے لئے انہیں کپڑے بھی دیئے ۔

گرو پرماہنس تقسیم ہند سے قبل ضلع کرک کے قصبے ٹیری میں میں رہائش پذیر تھے جہاں دیگر ہندو بھی رہتے تھے ٹیری قصبہ میں ہندووں کی اکثریت تھی اور یہاں ہندووں کا ایک بہت بڑا بازار قائم تھا جو کہ آج بھی موجود ہے مگر اس میں وہ چہل پہل نہیں جو کہ اس کا خاصہ تھی گروپرماہنس نے بازار کے ساتھ ایک آشرم قائم کر رکھا تھا جہاں پر برصغیر پاک وہند کے دور دراز علاقوں سے ہندو علم حاصل کرنے آتے تھے علاقے کے لوگوں کے مطابق گرو پرماہنس ایک پڑھا لکھا شخص تھا اور اس کو اسلام کے متعلق بھی بہت کچھ معلوم تھا۔

یہ بھی پڑھئے :  بول کہ لب آزاد ہیں تیرے…. تحریر رفعت انجم

 بعض لوگوں کا یہ بھی دعوی ہے کہ گروپرماہنس حافظ قران بھی تھا اس وجہ سے ہندووں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی اس کے آشرم پر حاضر ہوتی تھی گرو بیماروں کو تعویذ لکھتے تھے دعائیں دیتے تھے گرو پرماہنس 1919میں ٹیری میں فوت ہوئے اور اسی آشرم میں اس کو دفن کردیا گیا اور اس پر ایک مقبرہ تعمیر کرایا گیا گرو پر ماہنس کی موت کے بعد بھی ہندو دور دراز کے علاقوں سے گرو کی زیارت کے لئے مقبرے پر آتے سنگ مر مر سے بنی ہوئی اس قبر کو غسل دیتے اور یہاں پر نذر اور منت مانگ کر چڑھاوے چڑھاتے اور یہ سلسلہ قیا م پاکستان تک جاری رہا پاکستان بننے کے بعد یہاں کی مقامی ہندو آبادی بھارت منتقل ہوگئی اور آشرم سیمت ہندووں کی جائیدادوں کا ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے حصے میں آگیا یہ آشرم قیام پاکستان کے بعد مختلف لوگوں کے قبضے میں آیا۔ 15اگست 1997کو ہندووں کی ایک جماعت گرو کے مقبرے کی زیارت کے لئے آئی تو مقامی مولوی کی قیادت میں ایک مشتعل ہجوم نے مقبرے پر دھاوا بول دیا اور سنگ مر مر سے بنے ہوئے مقبرے کو تہس نہس کردیااور سنگ مر مر کی اینٹوں تک کو اکھاڑ لیا۔سپریم کورٹ میں کیس دائر ہوا تو ہندو یہ کس جیت گئے اور اب یہاں پر سمادھی کو دوبارہ تعمیر کردیا گیا ہے جہاں ہندو زائرین آکر اپنے گرو پرماہانس کے سمادھی کی زیارت کرتے ہیں اور علاقے کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ اداکرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں گرشتہ رو ز لوگوں میں امداد کی تقسیم بھی اس خدمت کی ایک کڑی تھی ۔گو کہ کچھ عناصر نے اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر وہ اس میں ناکام رہے اور دس لاکھ سے زیادہ کا راشن عید گفٹ سمیت ٹیری کے غریب اور نادار لوگوں میں تقسیم کردیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں