تحریر: محمد عالم آفریدی
قبائلی علاقوں میں انضمام سے پہلے ایف سی آر کا قانون تھا اور قبائلی علاقوں کے عوام رسم ورواج اور روایات پر اپنے زندگی گزارتے تھیں جو کافی عرصے سے یہ قانون رائج ہیں اب جب 2018 میں قبائلی اضلاع کے لوگوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کردیا گیا اور ایف سی آر کا ختم کیاگیا تو یہاں پر سابقہ حاصہ دار اورلیویز لو بھی پشاور پولیس میں ضم کردیا جس کی وجہ سے قبائلی اضلاعیں تھانہ کلچر کا اضافہ ہوا جو قبائلی اضلاع کے لوگوں کے لئے نیا تجربہ ہیں۔
خاصہ دار اور لیویز کو پولیس میں ضم کرنے سےیہاں پر باقی پاکستان کی طرح آئین کے مطابق ایف آئی آر درج کرنا شروع ہوگئی اور اسی کے ساتھ ایک طرف قانون اور انصاف کی بالادستی قائم ہوگئی تو دوسری طرف ان کی وجہ سے مسائل بڑھ گئے جن میں سہرفرست خواتین کے مسائل بڑھ گئے کیونکہ ان تھانوں میں خواتین اہلکاروں کی عدم موجودگی ایک بڑا چیلنج ہیں
عیرتی پختون خاجی شیر بہادر آفریدی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی اضلاع کو جلد بازی میں ان کی حصوصی حیثیت ختم کردی گئی اور ان کو 25ویں آئینی ترمیم کے بعد خیبرپختونخوا میں ضم کردیا گیا جن کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے مشکلات بڑھ گئیں ان کو ہوم ورک کے بغیر بیرونی ایجنڈے پر قبائلی علاقے ضم کردئے گئے جن کی وجہ سے بہت سے مسائل کے ساتھ تھانہ کلچر میں خواتین اہلکاروں کا نہ ہونا بھی خود سے ایک بڑا مسلہ ہے یہاں قبائلی رسم ورواج میں خواتین کی گرفتاری معیوب سمجھی جاتی ہے ضلع خیبر میں ایسے بہت سے واقعات ائے جن میں خواتین پولیس کی ضرورت پڑی ہے لیکن پولیس کے ساتھ خواتین پولیس نہ ہونے کی وجہ سے ایسے کیسس ابھی تک رہے گئی ہیں اور چھاپوں میں کہی باہر سے خواتین پولیس اہلکار کو لایا جاتا ہے جبکہ اکثر ان کے ساتھ بلکل بھی نہیں ہوتی ہے اگر بدقسمتی سے خاتون کو گرفتار کرنا ہوں تو یہاں باڑہ میں ایک بھی خاتون پولیس اہلکار موجود نہیں ہے۔
پورے ضلع خیبر کے ساتھ تحصیل باڑہ میں تین تھانے موجود ہے ان سب میں ایک بھی خواتین پولیس اہلکار موجود نہیں ہے اور پورے خیبر میں ایک بھی خواتین پولیس سٹیشن موجود ہیں ۔گزشتہ مہینہ باڑہ کے نواحی علاقہ شلوبر قمبر خیل میں ایک گھر پر پولیس نے باغیر لیڈی کانسٹیبل پولیس نے چھاپہ مارا جس پر علاقے کے لوگوں نے شدید احتجاج کا مظاہرہ کیا تھا ۔۔اسی سلسلے میں خیبر ڈی پی او خیبر عمران خان سے اس حوالے سے بار بار رابطے کی کوشش کی لیکن اس سے رابط نہ ہوسکا۔
جبکہ دوسری طرف قبائلی رہنما ملک خاجی محمد خسین آفریدی نے کہا کہ قبائلی رسم ورواج میں خواتین کی گرفتاری بلکہ گنجائش موجود نہیں ہے اور نہ ان کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ قبائلی اضلاع میں خواتین کو ایک مقام حاصل ہے حتیٰ کہ جنگ اور آپس کے دوشمنیوں میں بھی خواتین کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے لیکن اب چونکہ انضمام ہوا اور تھانہ کلچر میں خواتین پولیس اہلکاروں کی موجودگی ضروری ہے پولیس چھاپوں میں ان کے ساتھ خواتین اہلکار بھی موجود ہوں ابھی تک ان کی خواتین اہلکاروں کی بھرتیاں بھی نہیں ہوئی ہے
ضلع خیبر میں ایک بھی خواتین کا پولیس سٹیشن موجود نہیں ہے جبکہ نہ یہاں پر تھانوں میں خواتین اہلکار موجود ہے جن کی وجہ سے خواتین کو کیس رجسٹرڈ کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہیں جب بھی سرچ آپریشن کی جاتی ہے تو سب سے زیادہ مسلہ خواتین پولیس اہلکاروں کی عدم موجودگی سے بڑھ جاتا ہے کیونکہ قانون کے مطابق خواتین پولیس اہلکاروں کی موجودگی انتہائی ضروری ہوتا ہیں لیکن کئی دفعہ لوگوں نے شکایت کی کہ پولیس چادر اور چار دیواری کی پامالی کرتی ہیں جن کی وجہ سے پولیس کا مورال خراب ہوتا ہیں۔اسی طرح دوسرہ واقعہ شلوبر وچنی اور قبیلہ ذخہ خیل کے درمیان آیا تھا جس میں پولیس نے سرچ آپریشن شروع کیا تھا لیکن خاتون پولیس اہلکار نہ ہونے کی وجہ سے پولیس اور عوام کے درمیان کافی ناخوشگوار واقعہ سامنے آیا تھا ۔
لیڈی کونسلر زیباافریدی نے بات کرتے ہوئے کہاں کہ اب فاٹا انضمام ہوچکا ہے اور سارے ڈیپارٹمنٹ کی طرح پولیس بھی خیبر پختونخوا میں ضم ہوئے ہیں تو خکومت کو چاہی یہ کہ قبائلی اضلاع میں خواتین پولیس سٹیشن قائم کریں تاکہ خواتین اپنے مسلے خود خل کرے،اب قبائلی خواتین بھی اعلی تعلیم یافتہ ہوئے ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ پولیس میں جائے۔انہوں خکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس خواتین کے لئے کوٹہ سسٹم میں نرمی لائیں اور سیٹے بڑھائے تاکہ ہمارے خواتین پولیس میں آجائے۔۔۔